Ala Hazrat Aik Peer-e-Kamil

Book Name:Ala Hazrat Aik Peer-e-Kamil

سید اَیُّوب علی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : ہم نے پھر اس نوجوان کو تسلی دی اور کہا : آپ ڈریں نہیں ، اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نمازِ ظہر کے لئے تشریف لائیں گے ، اس وقت تجدیدِ بیعت کے لئے عرض کر دینا۔ مختصر یہ کہ ظہر کے وقت جب اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  تشریف لائے تو نماز کے بعد اُس نوجوان نے ہمت کر کے تجدیدِ بیعت کے لئے عرض کر دیا۔ اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے فرمایا : جب آپ وہاں بیعت ہو چکے ہیں ، پھر مجھ سے کیوں کہہ رہے ہو ؟ نوجوان نے عرض کیا : حُضُور! مجھ سے قصور ہوا ، لوگوں کے بہکاوےمیں آگیا تھا ، اپنے قصور کی معافی چاہتا ہوں۔  اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے فرمایا : خوب غور کر لو! سوچ لو! سمجھ لو! مجھے مرید کرنے کا شوق نہیں مگر یہ کہ لوگ صِراطِ مستقیم پر قائِم رہیں (یعنی میں صِرْف اس لئے لوگوں کو مرید کرتا ہوں کہ لوگ سیدھے راستے پر رہیں ، اس کے لئے عِلاوہ مرید کرنے میں مجھے کوئی لالچ نہیں ہے ،  مزید فرمایا : ) یہ ٹھیک نہیں کہ آج اِس دروازے پر کھڑے ہیں ، کل اُس دروازے پر۔ یَکْ دَرْ گِیْر مُحْکَم گِیْر (یعنی ایک دروازہ پکڑو! اورمضبوطی سے پکڑو...!)۔ اس پر نوجوان نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا : حُضُور! ایسا ہی ہو گا ، خُدا کے لئے اب میرا قُصُور مُعَاف فرما دیجئے۔ اس پر اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے اس نوجوان کو دوبارہ بیعت فرمایا اور وہ نوجوان خوش خوش اپنے گھر چلا گیا۔ ([1])

میں گرفتارِ بلائے دوجہاں                  ہر بلا سے کر رِہا احمد رضا!

تُم ہی مُرْشِد ، تم دوائے رنج و غم          مجھ پہ بھی چشمِ عطا احمد رضا!


 

 



[1]...حیاتِ اعلیٰ حضرت ، جلد : 3 ، صفحہ : 195 بتغیر۔