Book Name:Ameer e Ahl e Sunnat Ka Ishq e Rasool

وغیرہ ، یہ )  یہاں پر ہوتے ہیں لیکن وہاں جا کر کچھ عرصہ رہتے ہیں تو بچے اور فیملی یاد آتی ہے ، پھر وہاں رہنا دشوار ہوتا ہے۔

نگرانِ پاکستان فرماتے ہیں : میں نے انہیں کچھ نہیں کہا مگر یہ بات میرے ذہن میں رہ گئی ، کچھ عرصے کے بعد میں کراچی حاضِر ہوا ، امیرِ اہلسنت کی بارگاہ میں حاضِری کا موقع ملا تو میں نے یہی بات آپ کی خدمت میں پیش کر دی کہ میں اس طرح نعت شریف پڑھ رہا تھا  اور ایک اسلامی بھائی یوں کہہ رہے تھے  ( کہ مدینے جانا ، پھر واپس نہ آنا وغیرہ یہ جذبات یہاں تو ہوتے ہیں ، وہاں جا کر کچھ عرصہ رہیں تو یہ جذبات نہیں رہتے ، پھر بچوں کی اور فیملی کی یاد آتی ہے )  ۔ یہ سُن کر امیرِ اہلسنت دَامَت برکاتہم العالیہ نے ایک آہ بھری اور اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہ علیہ کا یہ شعر پڑھا :

جان ہے عشقِ مصطفےٰ ، روز فُزوں کرے خدا                                                                                               جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اُٹھائے کیوں ( [1] )

پھر فرمایا : میں اتنی مرتبہ مدینۂ پاک گیا ہوں کہ مجھے گنتی یاد نہیں ہے مگر الحمد للہ ! اب بھی حاضرئ مدینہ کی تمنا ہے۔

اللہ ! اللہ ! یہ ہے شوقِ مصطفےٰ ، یہ ہے شوقِ مدینہ... ! ! یہ ہے صحابۂ کرام  علیہم ُالرِّضْوَان  کے مزاجِ عشقِ رسول کا وہ فیضان جو اللہ پاک نے امیرِ اہلسنت دَامَت برکاتہم العالیہ کو نصیب فرمایا ہے۔

امیرِ اہلسنت کی لکھی ہوئی ایک دُعا ہے ، آئیے ! ہم بھی مانگتے ہیں :

یارَبِّ مُحَمَّد میری تقدیر جگا دے                                              صحرائے مدینہ مجھے آنکھوں سے دکھا دے


 

 



[1]...حدائقِ بخشش ، صفحہ : 95۔