Book Name:Fikr e Akhirat

دل بُرے خَیالات ، بُغْض وکینہ ، حَسد وغیرہ جیسی باطِنی بیماریوں کا عادی ہوتا ہے۔ لہٰذا سمجھدار وہی ہے جوآخِرت کے حِساب وکتا ب سے ڈَرتے ہوئے اپنے اَعْضاء کو گُناہوں سے بچانے میں کامیاب ہوجائے ورنہ قِیامت کے دن جب ان اَعْضا کے بارے میں پوچھا جائے گا تو ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا۔اللہ کریم قرآنِ پاک میں پارہ15سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 36 میں ارشاد فرماتا ہے :

اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)   ( پ۱۵ ، بنی اسرائیل : ۳۶ )

ترجمۂ کنزالعرفان : بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سُوال کیا جائے گا۔

بیان کردہ آیتِ کریمہ کے تَحْت تفسیر ِ قُرطبی میں ہے : ان میں سے ہر ایک سے اس کے اِستعمال کے بارے میں سُوال ہوگا ، چُنانچہ دل سے پوچھا جائے گا کہ اس کے ذَریعے کیا سوچا گیا اور پھرکیا سوچ رکھی گئی جبکہ آنکھ اور کان سے پوچھا جائےگا تمہارے ذَریعے کیا دیکھا اور کیا سُنا  گیا۔  ( تفسیر قرطبی ، ۲۰/۱۳۹ )

علامہ سَیِّدمحمود آلُوسی بَغْدادی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  فرماتے  ہیں : یہ آیت اس بات پر دَلیل ہے کہ آدمی کے دل کے کاموں پر بھی اس کی پکڑہوگی ، مَثَلاً کسی گُناہ کا پکّا اِرادہ کرلینایادل کامُختلف بیماریوں مَثَلاً کینہ ، حَسد اور خُودکو اچھا سمجھنے وغیرہ میں مُبْتَلاہوجانا ، ہاں عُلَمَاء نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ دل میں کسی گُناہ کے بارے میں صرف سوچنے پر پکڑ نہ ہوگی جبکہ اس کے کرنے کا پکا اِرادہ نہ رکھتا ہو۔                                                                                                           ( تفسیر روح المعانی ، ۱۵/۹۷ )

حکیمُ الاُمَّت حضرت مفتی احمد یارخان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : دل کے بُرے اِراد