Book Name:Aala Hazrat Aur Khidmat e Quran

دِینی عُلُوم پر PHD کی ہوئی ہو ، وہ قرآنِ کریم کا ترجمہ لکھ سکتا ہے ، کسی عام شخص کے بس کی بات نہیں ہے اور یہ ہے بھی حقیقت ( Reality ) ... ! !  خُود غور فرما لیجئے کہ وہ عظیمُ الشَّان کِتاب جو اللہ پاک کا کلام ہے ، وہ کتاب کہ جسے پڑھانے کے لئے رَبِّ کریم نے امامُ الانبیا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کو بھیجا ، بھلا اس کِتَاب کا ترجمہ کرنا ، اس کے معنیٰ اور مفہوم کو کسی دوسری زبان میں ڈھالنا کوئی آسان بات ہو گی ؟ اس لئے ترجمۂ قرآن کے لئے کڑی شرائط رکھی گئی ہیں۔ الحمد للہ ! اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ ان تمام شرائط پر پُورے اترتے تھے ، آپ تو وہ بےمثال عالِمِ دِین ہیں کہ صِرْف  15نہیں بلکہ 100 سے زیادہ عُلُوم پر کامِل مہارت رکھتے تھے۔

خیر !  آپ نے ترجمہ کنز الایمان کیسے لکھا ؟ سنیئے ! غالباً 1330ھ کی بات ہے ، صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں درخواست پیش کی کہ ایک ایسے ترجمۂ قرآن کی اس وقت ضرورت ہے جو غلطیوں سے پاک ہو ، احادیث اور اَئمۂ کرام کے اَقْوال کے مطابق ہو ، اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : یہ تو بہت ضروری ہے مگر چھپنے کی کیا صُورت ہو گی ؟ باوُضُو کاپیوں کو لکھنا ، باوُضُو کاپیوں اور حروف کی دُرُستی کرنا ، زَبَر ، زَیْر پیش اور نقطوں یا علامتوں کو پُوری احتیاط سے پرکھنا کہ کوئی غلطی نہ رہ جائے ، پِھر یہ سب چیزیں ہو جانے کے بعد سب سے بڑی مشکل تو یہ ہے کہ پریس میں ہر وقت باوُضُو رہے ، غرض کہ چھپنے سے لے کر کتابی صُورت میں تیار ہونے تک ہر کام باوُضُو رہ کر مکمل احتیاط سے کیسے کیا جا سکے گا ؟ صدر الشریعہ نے عرض کیا : اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم ! جو باتیں ضروری