Saadat Mand Kon

Book Name:Saadat Mand Kon

صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے عِلْم پر،جیسے سُوال انوکھے تھے، آپ نے جوابات بھی نِرالے ہی عطا فرمایا، ارشاد فرمایا: اے زید! تم نے صبح کس کیفیت میں کی تھی؟ عرض کیا: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم! صبح جب کی تو میری کیفیت یہ تھی کہ *میرے دِل میں نیکی کی اور نیک لوگوں کی محبّت تھی *میرادِل چاہتا تھا کہ میں نیک کام کروں*پِھر جو نیکی مجھ سے رہ گئی، میں نہ کر پایا، مجھے اس پر دُکھ ہوا اور جو نیکی میں کر پایا، چاہے وہ تھوڑی تھی یا زیادہ،مجھے اس پرثواب ملنے کا یقین ہو گیا۔

(یعنی یہ کُل 3کام ہیں: (1):نیکی سے اور نیک لوگوں سے محبّت (2):نیک کام کرنے کی چاہت (3):اگر کوئی نیکی نہ ہو پائی تو اس پر دُکھ ہونا)۔ رسولِ ذیشان، مکی مَدَنی سلطان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے حضرت زید الخیر رَضِیَ اللہُ عنہ کا جواب سُن کر فرمایا: هِيْهِ! هٰذِہِ‌عَلَامَةُ ‌اللهِ ‌فِيمَنْ ‌يُّرِيدُ یعنی ہاں!  یُونہی بات ہے، یہی اس شخص کی علامت ہے جسے اللہ پاک پسند فرماتا ہے اور الله پاک کے ناپسندیدہ بندے کی علامت یہ ہے کہ اگر تجھ سے بھلائی کا ارادہ نہ کیا جاتا تو تمہارے لئے اس کے اُلٹ کام آسان ہو جاتے، پِھر اللہ پاک کو کچھ پروا نہ تھی کہ تم کس وادِی میں ہلاک ہوتے ہو۔([1])

سُبْحٰنَ اللہ! معلوم ہوا؛اللہ پاک کا پسندیدہ بندہ، نیک اور سعادت مند بندہ وہ ہے جس میں یہ 3نشانیاں ہوں (1):وہ نیکی سے بھی محبّت کرتا ہو اور نیک لوگوں سے بھی محبّت کرتا ہو (2):وہ صِرْف نیکوں کی تعریف کرنے پر ہی نہ رہتا ہو بلکہ خُود بھی نیک بننے کی چاہت رکھتا ہو (3):اور تیسری بات کہ اگرخدانخواستہ کسی وجہ سے وہ نیکی نہ کر پائے تو اسے اس محرومی پردُکھ بھی ہوتا ہو۔ یہ سعادت مند بندہ ہے۔


 

 



[1]...السنۃ لابن ابی عاصم، جلد:1، صفحہ:296، حدیث:424۔