Book Name:Ala Hazrat Ka Shoq e Ilm e Deen

مدنی قاعدہ پڑھاتے ہیں،اس کے پہلے سبق میں بچوں کو عربی کے مُفْرد حُرُوف (یعنی عربی کے حُرُوفِ تہجیAlphabets)سکھائے جاتے ہیں اور دوسرے سبق میں مُرکبات (یعنی 2 حروف کی آپس میں مِلی ہوئی شکلوں) کی پہچان کروائی جاتی ہے۔

سیدی اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ کی رَسْمِ بسمِ اللہ کا موقع تھا، آپ کے والِد صاحِب، دادا جان اور خاندان کے دیگر افراد موجود تھے، اُستاد صاحِب نے حسبِ دستور بسم اللہ شریف پڑھائی، پھر قاعدے کی پہلی تختی سے اَلِف، بَا، تَا  وغیرہ حُرُوفِ تہجی پڑھانا شروع کئے، اُستاد صاحِب جیسے پڑھاتے گئے، اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ پڑھتے گئے،جب دوسری تختی پر پہنچے تو اُستاد صاحِب نے مُرَکَّب حُرُوف پڑھاتے ہوئے فرمایا:کہو!لَام، اَلِفْ۔اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ خاموش ہو گئے۔اُستادصاحِب نے دوبارہ کہا:میاں صاحبزادے!کہو:لَام، اَلِفْ۔ اعلیٰ حضرت نے کہا:یہ دونوں حُرُوف تو میں پڑھ چکا ہوں۔اَلِفْ بھی پڑھ لیا،لَام بھی پڑھ لیا، اب یہ دوبارہ کیوں پڑھائے جا رہے ہیں؟ اس پر آپ کے دادا جان نے فرمایا: بیٹا!اُستاد کا کہا مانو...!! دادا جان کی بات سُن کر اعلیٰ حضرت خاموش ہو گئے اور اُستاد کے پڑھانے کے مطابق پڑھ لیا لیکن ساتھ ہی دادا جان کے چہرے پر ایک سوالیہ نگاہ ڈالی۔آپ کے دادا جان سمجھ گئے تھے  کہ ننھے شہزادے نے بات تو مان لی مگر دِل مطمئن نہیں ہوا،اگرچہ اس گہرے سُوال کا جواب ننھے بچے کو سمجھانا مشکل تھا مگر آپ ایمانی فراست سے سمجھ چکے تھے کہ شہزادے کی عمر اگرچہ ننھی سی ہے مگرعقل و شُعُور ننھا نہیں ہے، آج کا یہ ننھا بچہ کل کو عِلْم و فن کا تاجدار ہو گا، چنانچہ آپ نے ننھے شہزادے کو مخاطب کر کے فرمایا: بیٹا!اَلِفْ ہمیشہ ساکِن (Silent) ہوتا ہے،اسے اکیلے پڑھنا ممکن نہیں، پہلے آپ نے جو پڑھا، وہ اَلِفْ نہیں بلکہ ہمزہ تھا، اب