Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Ahqaf Ayat 29 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(66) | Tarteeb e Tilawat:(46) | Mushtamil e Para:(26) | Total Aayaat:(35) |
Total Ruku:(4) | Total Words:(718) | Total Letters:(2624) |
{وَ اِذْ صَرَفْنَاۤ اِلَیْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ: اور جب ہم نے تمہاری طرف جنوں کی ایک جماعت پھیری۔} اس سے پہلی آیات میں کفارِ مکہ کے سامنے سابقہ امتوں کے حالات اور ان کا انجام بیان ہوا اور اب یہاں سے ان کے سامنے جنوں کے ایمان لانے کا واقعہ بیان کر کے انہیں شرم وعار دلائی جا رہی ہے چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ کے سامنے اس وقت کا واقعہ بیان کیجئے جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو آپ کی طرف بھیج دیا جس کا حال یہ تھا کہ وہ غور سے قرآن سنتی تھی، پھر جب وہ قرآنِ مجید کی تلاوت کے وقت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے توآپس میں کہنے لگے: خاموش رہو تاکہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قراء ت اچھی طرح سن لیں ، پھر جب تلاوت ختم ہوگئی تو وہ جنات رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاکرآپ کے حکم سے اپنی قوم کی طرف ایمان کی دعوت دینے گئے اور انہیں ایمان نہ لانے اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت سے ڈرایا ،چنانچہ انہوں نے کہا:اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب قرآن شریف سنی ہے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد نازل کی گئی ہے اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ پہلی کتابوں کی تصدیق فرماتی ہے ، حق اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم!اللہ تعالیٰ کے مُنادی حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات مانو اور ان پر ایمان لاؤ، اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمہارے اسلام قبول کرنے سے پہلے کے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچالے گا اور یاد رکھو!جو اللہ تعالیٰ کے بلانے والے کی بات نہ مانے گا تووہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتا اور ا س کے عذاب سے بچ نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کا کوئی مددگار نہیں ہے جو ا سے عذاب سے بچا سکے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مُنادی حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات نہ مانیں وہ کھلی گمراہی میں ہیں کیونکہ جب ان کی صداقت پر مضبوط دلائل قائم ہیں تو ان کی بات نہ ماننا ایسی گمراہی ہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس واقعے کو سن کر کفارِ مکہ کو غور کرنا چاہئے کہ ان کی زبان وہی ہے جس میں قرآن نازل ہوا اور نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تعلق بھی انسانوں سے ہے جبکہ جِنّات نہ تو رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہم زبان ہیں اورنہ آپ کی جنس سے انسان اور بشر ہیں ،جب وہ قرآنِ مجید کی آیات سن کر سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے ہیں تو کفار ِمکہ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ وہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قرآن کریم سن کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت اور قرآنِ مجید کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے پر ایمان لائیں ۔( روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۲، ۸ / ۴۸۶-۴۹۰، روح المعانی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۲، ۱۳ / ۲۵۹-۲۶۴، ملتقطاً)
سورہِ اَحقاف کی آیت نمبر29تا32سے متعلق 5باتیں :
مفسرین نے ان آیات کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کے لئے کثیر کلام فرمایا ہے ، یہاں اس میں سے 5 باتیں ملاحظہ ہوں ،
(1)…آیت نمبر29میں لفظِ ’’نَفر‘‘ مذکور ہے، مشہور قول کے مطابق اس کا اِطلاق تین سے لے کر دس تک اَفراد پر ہوتا ہے اورجنوں کی جو جماعت حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھیجی گئی اس کی تعداد کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ وہ سات جِنّات پر اور ایک قول یہ ہے کہ وہ نو جِنّات پر مشتمل تھی۔( روح المعانی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۱۳ / ۲۵۹، جلالین مع صاوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۱۹۴۳- ۱۹۴۴، ملتقطاً)
(2)…ان جِنّات کا تعلق کس علاقے سے تھا ا س کے بارے میں بھی ایک قول یہ ہے کہ ان کا تعلق یمن کے علاقے نَصِیبِین سے تھا اور ایک قول یہ ہے کہ ان کا تعلق نِیْنَویٰ سے تھا اور ایک قول یہ ہے کہ وہ جِنّات شَیْصَبان سے تھے۔( روح المعانی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۱۳ / ۲۶۰)
(3)… مُحقِّق علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جن سب کے سب مُکَلَّف ہیں ۔( خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۱۳۱)
(4)…آیت نمبر30میں ہے کہ جِنّات نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر کیا،اس کے بارے میں حضرت عطاء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا: چونکہ وہ جِنّات دین ِیہودِیَّت پر تھے اس لئے انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر کیا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتاب کا نام نہ لیا، اور بعض مفسرین نے کہا : حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتاب کا نام نہ لینے کا باعث یہ ہے کہ اس میں صرف مَواعِظ ہیں ، اَحکام بہت ہی کم ہیں ۔( بغوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۱۵۸، ابن کثیر، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳۰، ۷ / ۲۸۰، ملتقطاً)
(5)…آیت نمبر31میں بیان ہوا کہ ایمان قبول کرنے کی صورت میںاللہ تعالیٰ گناہ بخش دے گا۔اس میں تفصیل یہ ہے کہ ایمان لانے سے جوگناہ بخشے جائیں گے ان سے مراد وہ گناہ ہیں جن کاتعلق حُقُوقُ اللہ سے ہواورجوگناہ حُقُوقُ الْعِبَاد سے متعلق ہوگئے و ہ (محض ایمان قبول کرنے سے) معاف نہیں ہوں گے(بلکہ ان کی تلافی ضروری ہے)۔( ابوسعود، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۵ / ۵۸۱)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.