Our new website is now live Visit us at https://alqurankarim.net/

Home Al-Quran Surah Al Ahzab Ayat 1 Translation Tafseer

رکوعاتہا 9
سورۃ ﳢ
اٰیاتہا 73

Tarteeb e Nuzool:(90) Tarteeb e Tilawat:(33) Mushtamil e Para:(21-22) Total Aayaat:(73)
Total Ruku:(9) Total Words:(1501) Total Letters:(5686)
1

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(1)
ترجمہ: کنزالایمان
اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) اللہ کا یوں ہی خوف رکھنا اور کافروں اور منافقوں کی نہ سننا بےشک اللہ علم و حکمت والا ہے


تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ: اے نبی!} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ‘‘ کے ساتھ خطاب فرمایا جس کے معنی یہ ہیں  ’’ ہماری طرف سے خبریں  دینے والے ، ہمارے اَسرار کے امین ، ہمارا خطاب ہمارے پیارے بندوں  کو پہنچانے والے ۔ نامِ پاک کے ساتھ یعنی ’’یَا مُحَمَّدُ‘‘ کہہ کر خطاب نہ فرمایا جیسا کہ دوسرے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خطاب فرمایا ہے، اس سے مقصود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت وتکریم، آپ کا احترام اور آپ کی فضیلت کوظاہر کرنا ہے ۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱، ص۹۳۰)

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’اَلنَّبِیُّ‘‘ کے ساتھ نداکی ہے،نام کے ساتھ ندا کرتے ہوئے ’ ’یَا مُحَمَّدُ‘‘ نہیں  فرمایا جس طرح دوسرے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ندا کرتے ہوئے فرمایا کہ یاآدم ،یانوح ، یاموسیٰ ، یاعیسیٰ، یازکریا، اور یایحییٰ، عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ اس سے مقصود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت ووجاہت کو ظاہر کرنا ہے اور ’’اَلنَّبِیُّ‘‘ ان اَلقاب میں  سے ہے جو نام والے کے شرف اورمرتبے پر دلالت کرتا ہے۔یاد رہے کہ سورہِ فتح میں  جو ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ‘‘ فرمایاہے،اس میں  آپ کا نامِ پاک اس لئے ذکر فرمایاتاکہ لوگوں  کومعلوم ہوجائے کہ آپاللہ تعالیٰ کے رسول ہیں  اور لوگ آپ کے رسول ہونے کاعقیدہ رکھیں  اوراس کوعقائد ِحَقّہ میں  شمارکریں  ۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۱۳۱)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’قرآنِ عظیم کا عام محاورہ ہے کہ تمام انبیائے کرام کو نام لے کر پکارتا ہے مگر جہاں  محمد رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا ہے، حضور کے اَوصافِ جلیلہ و اَلقابِ جمیلہ ہی سے یادکیا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ‘‘(احزاب:۴۵)

اے نبی ہم نے تجھے رسول کیا۔

’’یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ‘‘(مائدہ:۶۷)

اے رسول پہنچا جو تیری طرف اترا ۔

’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱)قُمِ الَّیْلَ‘‘(مزمل:۱، ۲)

اے کپڑا اوڑھے لیٹنے والے، رات میں  قیام فرما۔

’’یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱)قُمْ فَاَنْذِرْ‘‘(مدثر:۱، ۲)

اے جھرمٹ مارنے والے، کھڑا ہو لوگوں  کو ڈر سنا۔

’’ یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲)اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘( یس:۱۔۳)

اے یس، مجھے قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بے شک تو مُرسَلوں  سے ہے ۔

’’طٰهٰۚ(۱)مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰى‘‘( طہ:۱، ۲)

اے طٰہ،ہم نے تجھ پر قرآن اس لیے نہیں  اتارا کہ تو مشقت میں  پڑے۔

            ہر ذی عقل جانتا ہے کہ جو ان نداؤں  اور ان خطابوں  کو سنے گا بِالبداہت حضور سیّد المرسَلین و اَنبیائے سابقین کا فرق جان لے گا۔امام عزالدین بن عبد السلام وغیرہ علمائے کرام فرماتے ہیں : بادشاہ جب اپنے تمام اُمراء کو نام لے کر پکارے اور ان میں  خاص ایک مُقرب کو یوں  ندا فرمایا کرے: اے مقربِ حضرت!اے نائب ِسلطنت !اے صاحب ِ عزت !اے سردارِ مملکت !تو کیا کسی طرح محلِ رَیب وشک باقی رہے گا کہ یہ بندہ بارگاہِ سلطانی میں  سب سے زیادہ عزت و وجاہت والا اور سرکارِ سلطانی کو تمام عمائد و اَراکین سے بڑھ کر پیارا ہے۔( فتاویٰ رضویہ، سیرت وفضائل وخصائص سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۳۰ / ۱۵۴-۱۵۵)

نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کی جانے والی ندا سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس نداء سے تین مسئلے معلوم ہوئے :

(1)…حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فقط نام شریف سے پکارنا قرآنی طریقے کے خلاف ہے ، لہٰذا حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوذاتی نام کی بجائے القاب سے پکارنا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:علماء تصریح فرماتے ہیں  ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نام لے کر نداکرنی حرام ہے۔ اورواقعی محلِ انصاف ہے جسے اس کا مالک ومولیٰ تبارک وتعالیٰ نام لے کر نہ پکارے غلام کی کیا مجال کہ راہِ ادب سے تَجاوُز کرے۔( فتاویٰ رضویہ، سیرت وفضائل وخصائص سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۳۰ / ۱۵۷)

(2)… حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذاتی نام شریف محمد واحمد ہیں  جبکہ آپ کے القاب اور صفاتی نام شریف بہت ہیں ۔ نبی بھی آپ کے القاب میں  سے ہے۔

(3)… رب تعالیٰ کی بارگاہ میں  حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت تمام رسولوں  سے زیادہ ہے کہ اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے نام شریف سے پکارا مگر ہمارے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو لقب شریف سے یاد فرمایا۔

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ: اے نبی!اللہ سے ڈرتے رہنا۔} شانِ نزول: ابوسفیان بن حرب ، عکرمہ بن ابو جہل اور ابو الاعور سُلَّمی جنگ ِاُحد کے بعد مدینہ طیبہ میں  آئے اور منافقین کے سردار عبد اللہ بن اُ بی بن سلول کے یہاں  مقیم ہوئے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے گفتگو کے لئے امان حاصل کر کے انہوں  نے یہ کہا کہ آپ لات ، عُزّیٰ اور مَنات وغیرہ بتوں  کو جنہیں  مشرکین اپنا معبود سمجھتے ہیں  کچھ نہ فرمائیے اور یہ فرما دیجئے کہ ان کی شفاعت ان کے پجاریوں  کے لئے ہے، اس کے بدلے میں  ہم لوگ آپ کو اور آپ کے رب کو کچھ نہ کہیں  گے، یعنی آئندہ آپ سے لڑائی وغیرہ نہیں  کریں  گے۔حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی یہ گفتگو بہت ناگوار ہوئی اور مسلمانوں  نے ان لوگوں  کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا لیکن نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قتل کی اجازت نہ دی اور فرمایا کہ میں  انہیں  امان دے چکا ہوں  اس لئے قتل نہ کرو بلکہ مدینہ شریف سے نکال دو۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان لوگوں  کو نکال دیا ۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا’’اے پیارے نبی!آپ ہمیشہ کی طرح اِستقامت کے ساتھ تقویٰ کی راہ پر گامزن رہئے اور کافروں  اور منافقوں  کی شریعت کے بر خلاف بات نہ ماننے پر قائم رہئے۔بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ اس آیت میں  خطاب توحضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہے اور مقصود آپ کی اُمت سے فرمانا ہے کہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے امان دیدی تو تم اس کے پابند رہو اور عہد توڑنے کا ارادہ نہ کرو اور کفار و منافقین کی خلافِ شرع بات نہ مانو ۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ:۱،۳ / ۴۸۱، ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ:۱، ۴ / ۳۰۶، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۱۳۱، روح المعانی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱ / ۱۹۲-۱۹۳، ملتقطاً)

یہودیوں  ،عیسائیوں  ،مجوسیوں  اور دیگر کفار کی مخالفت کا حکم:

            سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود بھی کافروں  اور منافقوں  کے طریقوں  کی مخالفت فرمایا کرتے تھے اور آپ نے اپنی امت کو بھی ان کے طریقوں  کی مخالفت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ،چنانچہ

          حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک یہودی اور عیسائی (سفید) بالوں  کو نہیں  رنگتے،سو تم ان کی مخالفت کرو۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، ۲ / ۴۶۲، الحدیث: ۳۴۶۲)

            اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی روایت ہے،حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مونچھیں  پَست کرو اور داڑھی بڑھاؤ ، مجوسیوں  کی مخالفت کرو۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ، ص۱۵۴، الحدیث: ۵۵(۲۶۰))

            حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عاشوراء کے دن روزہ رکھو اور اس میں  یہودیوں  کی ا س طرح مخالفت کرو کہ عاشورا سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھو۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن العباس ۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۱۸، الحدیث: ۲۱۵۴)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ یہودیوں ،عیسائیوں  اور دیگر تمام کفار کے طریقوں  کی مخالفت کرے اور نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ، اور اَکابر بزرگانِ دین کے طریقوں  کی پیروی کرے۔

Reading Option

Ayat

Translation

Tafseer

Fonts Setting

Download Surah

Related Links