Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Ahzab Ayat 13 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(90) | Tarteeb e Tilawat:(33) | Mushtamil e Para:(21-22) | Total Aayaat:(73) |
Total Ruku:(9) | Total Words:(1501) | Total Letters:(5686) |
{وَ اِذْ قَالَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ: اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا: اے مدینہ والو!۔} اس آیت میں ’’یثرب‘‘ کا لفظ ذکر ہوا، اس کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’قرآنِ عظیم میں کہ لفظ ’’یثرب‘‘ آیا وہ رَبُّ الْعِزَّت جَلَّ وَعَلَا نے منافقین کا قول نقل فرمایا ہے۔ یثرب کا لفظ فساد وملامت سے خبر دیتاہے وہ ناپاک اسی طرف اشارہ کرکے یثرب کہتے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان پر رد کے لئے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا، حضورِ اقدس،سرورِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’یَقُولُونَ یَثْرِبَ وَہِیَ الْمَدِینَۃُ‘‘ وہ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔( بخاری،کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ۔۔۔الخ،۱ / ۶۱۷،الحدیث:۱۸۷۱، مسلم،کتاب الحج، باب المدینۃ تنفی شرارہا، ص۷۱۷، الحدیث: ۴۸۸(۱۳۸۲))
اور فرماتے ہیں صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ’’اِنَّ اللہ تَعَالٰی سَمَّی الْمَدِیْنَۃَ طَابَۃَ ‘‘ بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا۔
مرقاۃ میں ہے: ’’اَلْمَعْنٰی اَنَّاللہ تَعَالٰی سَمَّاھَا فِی اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ اَوْ اَمَرَنَبِیَّہٗ اَنْ یُسَمِّیَھَا بِہَا رَدًّا عَلَی الْمُنَافِقِیْنَ فِیْ تَسْمِیَتِھَا بِیَثْرِبَ اِیْمَاءً اِلٰی تَثْرِیْبِہِمْ فِی الرُّجُوْعِ اِلَیْہَا‘‘ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ میں مدینہ منورہ کانام’’طابہ‘‘ رکھا ہے یااللہ تعالیٰ نے منافقوں کا رد کرتے ہوئے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم فرمایا کہ وہ مدینہ پاک کا نام طابہ رکھیں ، کیونکہ منافق مدینہ منورہ کا نام یثرب اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رکھتے تھے کہ اس کی طرف لوٹنے میں ان کا نقصان ہے۔(ت)( مرقاۃ المفاتیح،کتاب المناسک،باب حرم المدینۃ حرسہا اللّٰہ تعالی،الفصل الاول،۵ / ۶۲۲، تحت الحدیث: ۲۷۳۸)
اسی میں ہے: ’’قَالَ النَّوَوِیُّ رَحِمَہُاللہ تَعَالٰی قَدْ حُکِیَ عَنْ عِیْسَی بْنِ دِیْنَارَ اَنَّ مَنْ سَمَّاھَا یَثْرِبَ کُتِبَ عَلَیْہِ خَطِیْئَۃً وَ اَمَّا تَسْمِیَتُھَا فِی الْقُرْاٰنِ بِیَثْرِبَ فَہِیَ حِکَایَۃُ قَوْلِ الْمُنَافِقِیْنَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ‘‘ امام نووی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:حضرت عیسیٰ بن دینار رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے یہ قول حکایت کیا گیا ہے کہ جس کسی نے مدینہ طیبہ کا نام’’ یثرب‘‘ رکھا یعنی اس نام سے پکارا تو وہ گناہ گار ہوگا اورجہاں تک ا س بات کا تعلق ہے کہ قرانِ مجید میں مدینہ منورہ کا نام ’’یثرب‘‘ ذکر ہوا، تواس کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ان منافقین کے قول کی حکایت ہے جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے۔(ت)( مرقاۃ المفاتیح،کتاب المناسک،باب حرم المدینۃ حرسہا اللّٰہ تعالی،الفصل الاول،۵ / ۶۲۲، تحت الحدیث: ۲۷۳۷)۔( فتاویٰ رضویہ، کتاب الحظر والاباحۃ، ۲۱ / ۱۱۷-۱۱۸، ملتقطاً)
مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کا شرعی حکم:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز وممنوع وگناہ ہے اور کہنے والا گنہگار۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’مَنْ سَمَّی الْمَدِیْنَۃَ یَثْرِبَ فَلْیَسْتَغْفِرِاللہ ھِیَ طَابَۃُ ھِیَ طَابَۃُ ‘‘ جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے۔ مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے۔( مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث البراء بن عازب رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۴ / ۴۰۹، الحدیث: ۱۸۵۴۴)
علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں : ’’فَتَسْمِیَتُھَا بِذٰلِکَ حَرَامٌ لِاَنَّ الْاِسْتِغْفَارَ اِنَّمَا ھُوَ عَنْ خَطِیْئَۃٍ ‘‘ یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ کا یثرب نام رکھنا حرام ہے کہ یثرب کہنے سے استغفار کاحکم فرمایا اور استغفار گناہ ہی سے ہوتی ہے۔( التیسیر شرح جامع الصغیر، حرف المیم، ۲ / ۴۲۴)
ملا علی قاری رَحِمَہُ الْبَارِیْ مرقاۃ شریف میں فرماتے ہیں : ’’قَدْ حُکِیَ عَنْ بَعْضِ السَّلَفِ تَحْرِیْمُ تَسْمِیَۃِ الْمَدِیْنَۃِ بِیَثْرِبَ وَ یُؤَیِّدُہٗ مَا رَوَاہُ اَحْمَدُ (فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ الْمَذْکُوْرَ ثُمَّ قَالَ) قَالَ الطِّیْبِیُّ رَحِمَہُ اللہ: فَظَہَرَاَنَّ مَنْ یُحَقِّرُ شَاْنَ مَا عَظَّمَہُاللہ تَعَالٰی وَمَنْ وَصَّفَ مَا سَمَّاہُاللہ تَعَالٰی بِالْاِیْمَانِ بِمَا لَا یَلِیْقُ بِہٖ یَسْتَحِقُّ اَنْ یُسَمّٰی عَاصِیًا‘‘ ایک بزرگ سے حکایت کی گئی ہے کہ مدینہ منورہ کویثرب کہنا حرام ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو امام احمد نے روایت فرمایا ہے (پھر مذکورہ بالا حدیث بیان فرمائی،) پھر فرمایا: علامہ طیبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا : پس اس سے ظاہر ہو اکہ جو اس کی شان کی تحقیر کرے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے عظمت بخشی اور جس کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کانام دیا اس کا ایسا وصف بیان کرے جو اس کے لائق اور شایانِ شان نہیں تو وہ اس قابل ہے کہ اس کا نام عاصی (گنہگار) رکھا جائے۔(ت)( مرقاۃ المفاتیح،کتاب المناسک،باب حرم المدینۃ حرسہا اللّٰہ تعالی،الفصل الاول،۵ / ۶۲۲، تحت الحدیث: ۲۷۳۷)۔( فتاویٰ رضویہ، کتاب الحظر والاباحۃ، ۲۱ / ۱۱۶-۱۱۷، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں : ’’بعض اشعارِ اکابرمیں کہ یہ لفظ واقع ہوا، ان کی طرف سے عذر یہی ہے کہ اُس وقت اِس حدیث وحکم پر اطلاع نہ پائی تھی، جو مطلع ہوکر کہے اس کے لئے عذر نہیں ، معہٰذا شرع مطہر شعر وغیر شعر سب پر حجت ہے، شعر شرع پر حجت نہیں ہوسکتا۔( فتاویٰ رضویہ، کتاب الحظر والاباحۃ، ۲۱ / ۱۱۸-۱۱۹)
{لَا مُقَامَ لَكُمْ: (یہاں ) تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں ۔} غزوہِ خند ق کے موقع پر کافروں کے لشکر دیکھ کر منافقوں کا حال یہ ہو اکہ ان میں سے ایک گروہ کہنے لگا کہ اے مدینہ والو! رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لشکر میں تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں کیونکہ دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے لشکر تم پر غالب آ جائیں گے، ا س لئے عافیت اسی میں ہے کہ تم مدینہ منورہ میں اپنے گھروں کی طرف واپس چلے جاؤ،اور ان کا دوسراگروہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور یہ کہہ کر واپسی کی اجازت مانگنے لگا کہ مدینہ منورہ میں ہمارے گھر کمزور ہونے کی وجہ سے محفوظ نہیں اور ہمیں دشمنوں اور چوروں کی طرف سے خطرہ ہے، اس لئے آپ ہمیں واپس جانے کی اجازت دیں تاکہ ہم ان کی حفاظت کا انتظام کرلیں ،اس کے بعد ہم دوبارہ لشکر میں واپس ا ٓجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی اندرونی کیفیت کو ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ منافقوں کے گھر غیرمحفوظ نہ تھے بلکہ وہ لوگ یہ بہانہ بنا کر میدانِ جنگ سے فرار ہونا چاہتے تھے۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱۳، ۷ / ۱۵۱، ملخصاً)