Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Ahzab Ayat 30 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(90) | Tarteeb e Tilawat:(33) | Mushtamil e Para:(21-22) | Total Aayaat:(73) |
Total Ruku:(9) | Total Words:(1501) | Total Letters:(5686) |
{یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ: اے نبی کی بیویو!جو تم میں حیا کے خلاف کوئی کھلی جرأت کرے۔} یہاں آیت میں ’’حیا کے خلاف کھلی جرأت‘‘ سے زنا مراد نہیں بلکہ اس سے مراد شوہر کی ا طاعت میں کوتاہی کرنا اور اس کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش نہ آنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیویوں کو بدکاری سے پاک رکھتا ہے اورحیاء کے خلاف کھلی جرأت کرنے پر انہیں دگنا عذاب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص کی فضیلت زیادہ ہوتی ہے اس سے اگر قصور واقع ہوتو وہ قصور بھی دوسروں کے قصور سے زیادہ سخت قرار دیا جاتا ہے اسی لئے عالِم کا گناہ جاہل کے گناہ سے زیادہ قبیح ہوتاہے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ تمام جہان کی عورتوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں اسی لئے اُن کی ادنیٰ بات سخت گرفت کے قابل ہے۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۹۴۰، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۴۹۷، ملتقطاً)
علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں فاحشہ ِ مُبَیِّنَہ سے مراد گناہِ کبیرہ ہے اور یہ وہم نہ کیا جائے کہ اس سے زنا مراد ہے کیونکہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس سے معصوم ہیں کہ آپ کی ازواجِ مطہرات ا س بے حیائی کی مرتکب ہوں ۔۔۔۔۔یہاں فاحشہ سے مراد شوہر کی نافرمانی کرنا اور گھریلو معاملات میں بے اِعتدالی کرنا ہے اور چونکہ ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیرِ سایہ اور زیرِ تربیت رہتی ہیں ،ان کے سامنے وحی اترتی اور احکام نازل ہوتے ہیں اور ان کا رتبہ اور مقام عام عورتوں سے بلند ہے،اس لئے ان پر گرفت بھی بہت سخت ہے اور اگر بالفرض وہ کوئی کبیرہ گناہ کر لیں تو جس طرح نیک اعمال پر انہیں دگنا اجر دیاجاتاہے اسی طرح گناہ پر دگنا عذاب بھی ہوگا۔( البحر المحیط، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۰، ۷ / ۲۰۰، ملخصاً)
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مطہرات سے خطاب فرمایا ہے تاکہ ان کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کے رتبے کی عظمت ظاہر ہو کیونکہ عِتاب اور خطاب میں سختی ان کے بلند رتبے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ازواجِ مطہرات کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے انتہائی زیادہ قرب حاصل ہے اور یہ جنت میں بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواج ہوں گی، تو جتناانہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قرب حاصل ہے اتنا ہی انہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب حاصل ہو گا۔ اس میں ان لوگوں کا رد ہے جن کا گمان یہ ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت، آپ سے قرب اور آپ کے ساتھ تعلق شرک ہے۔ (یعنی قرب ِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی باتیں کرتے ہی کئی لوگوں کو شرک کی بو آنا شروع ہوجاتی ہے ان کا یہ اعتقاد باطل ہے۔)( صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۱۶۳۶)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.