Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Ahzab Ayat 37 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(90) | Tarteeb e Tilawat:(33) | Mushtamil e Para:(21-22) | Total Aayaat:(73) |
Total Ruku:(9) | Total Words:(1501) | Total Letters:(5686) |
{وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ: اور اے محبوب! یاد کرو جب تم اس سے فرمارہے تھے جس پر اللہ نے انعام فرمایا۔} اس آیت میں جس واقعے کی طرف اشارہ فرمایاگیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عظیم دولت سے نواز کر ان پر انعام فرمایا اور حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں آزاد کر کے اور ان کی پرورش فرما کر ان پر انعام اور احسان فرمایا۔جب حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا نکاح حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے ہو چکا تو حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا آپ کی ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ میں داخل ہوں گی، اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے۔ چنانچہ اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اورحضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے درمیان موافقت نہ ہوئی اور حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی سخت انداز میں گفتگو ، تیز زبانی ، اطاعت نہ کرنے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی شکایت کی۔ ایسا بار بار اتفاق ہوا اور ہر بار حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو سمجھا دیتے اور ان سے ارشاد فرماتے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو اور حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا پر تکبر کرنے اور شوہر کو تکلیف دینے کے الزام لگانے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ پر یہ ظاہر نہیں فرماتے تھے کہ حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے ساتھ تمہارا گزارہ نہیں ہو سکے گا اور طلاق ضرور واقع ہو گی اور اللہ تعالیٰ انہیں ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ میں داخل کرے گااور اللہ تعالیٰ کو یہ بات ظاہر کرنا منظور تھی ۔ جب حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو طلاق دے دی تو رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو لوگوں کی طرف سے اعتراض کئے جانے کا اندیشہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تو حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے ساتھ نکاح کرنے کا ہے اور ایسا کرنے سے لوگ طعنہ دیں گے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایسی عورت کے ساتھ نکاح کر لیا جو ان کے منہ بولے بیٹے کے نکاح میں رہی تھی ،اس پر آپ کو لوگوں کے بے جا اعتراضات کی پرواہ نہ کرنے کا فرمایا گیا۔حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی عدت گزرنے کے بعد ان کے پاس حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پیام لے کر گئے اور انہوں نے سر جھکا کر کمالِ شرم و اَدب سے انہیں یہ پیام پہنچایا۔حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے کہا کہ میں اس معاملہ میں اپنی رائے کو کچھ بھی دخل نہیں دیتی، جو میرے ربّ عَزَّوَجَلَّ کو منظور ہو میں اس پر راضی ہوں ۔یہ کہہ کر وہ بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں متوجہ ہوئیں اور انہوں نے نماز شروع کر دی اور یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو اس نکاح سے بہت خوشی اور فخر ہوا اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس شادی کا ولیمہ بہت وسعت کے ساتھ کیا۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۵۰۱-۵۰۲، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۹۴۲-۹۴۳، ملتقطاً)
سورہِ اَحزاب کی آیت نمبر37سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے یہ باتیں معلوم ہوئیں ،
یہ کہنا جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں یہ نعمت دی ہے۔ نیز رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیادہ شادیا ں فرمانے کی ایک حکمت معاشرے میں رائج بری رسموں کا خاتمہ کرنا تھی،جیسے حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے نکاح فرما کرلوگوں کے درمیان رائج اس بری رسم کاخاتمہ کردیا کہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنا حرام ہے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ منہ بولے بیٹے کی طلاق یافتہ بیوی سے نکاح کرنا جائز ہے جبکہ حرمت کی کوئی شرعی وجہ نہ ہو۔
حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا شرف:
حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو یہ شرف حاصل ہے کہ تمام صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں سے صرف ان کا نام صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں مذکور ہے اور دنیا و آخرت میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے انسان اور فرشتے آیت میں ان کا نام پڑھتے رہیں گے۔( صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۱۶۴۲)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.