Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Ahzab Ayat 45 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(90) | Tarteeb e Tilawat:(33) | Mushtamil e Para:(21-22) | Total Aayaat:(73) |
Total Ruku:(9) | Total Words:(1501) | Total Letters:(5686) |
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا: اے نبی!بیشک ہم نے تمہیں گواہ بنا کر بھیجا ۔} آیت کے اس حصے میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے۔ شاہد کا ایک معنی ہے حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گواہ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شاہدکا ترجمہ ’’حاضرناظر ‘‘ فرمایا ہے ،اس کے بارے میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے ، مفرداتِ راغب میں ہے ’’اَلشُّھُوْدُ وَ الشَّھَادَۃُ اَلْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ‘‘ یعنی شہود اور شہادت کے معنی ہیں حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے ،بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ۔(خزائن العرفان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۷۸۴)
اگر اس کا معنی ’’گواہ‘‘ کیا جائے تو بھی مطلب وہی بنے گا جو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ترجمے میں لکھا، کیونکہ گواہ کو بھی اسی لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کرتا ہے اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چونکہ تمام عالَم کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں اور آپ کی رسالت عامہ ہے ،جیسا کہ سورہِ فرقان کی پہلی آیت میں بیان ہواکہ
’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا‘‘(فرقان:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ (اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پرقرآن نازل فرمایا تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سنانے والا ہو۔
اس لئے حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قیامت تک ہونے والی ساری مخلوق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال ، افعال ، احوال ، تصدیق ، تکذیب ، ہدایت اور گمراہی سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں ۔(ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۳۲۵، جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۱۸۰، ملتقطاً)
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حاضر و ناظر ہیں :
اہلسنّت کا یہ عقیدہ ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی عطا سے حاضر و ناظر ہیں اور یہ عقیدہ آیات،اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال سے ثابت ہے ،یہاں پہلے ہم حاضر وناظر کے لغوی اور شرعی معنی بیان کرتے ہیں ،اس کے بعد ایک آیت ،ایک حدیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال میں سے ایک شخصیت کا قول ذکر کریں گے،چنانچہ حاضر کے لغوی معنی ہیں سامنے موجود ہونا یعنی غائب نہ ہونا اور ناظر کے کئی معنی ہیں جیسے دیکھنے والا، آنکھ کا تل،نظر،ناک کی رگ اور آنکھ کا پانی وغیرہ اور عالَم میں حاضر و ناظر کے شرعی معنی یہ ہیں کہ قُدسی قوت والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالَم کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آوازیں سنے یا ایک آن میں تمام عالَم کی سیر کرے اور سینکڑوں میل دور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے ۔یہ رفتار خواہ روحانی ہو یا جسمِ مثالی کے ساتھ ہو یا اسی جسم سے ہو جو قبر میں مدفون ہے یا کسی جگہ موجود ہے ۔(جاء الحق،حاضر وناظر کی بحث، ص۱۱۶، ملخصاً)
سورہِ اَحزاب کی آیت نمبر 6میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘ یعنی نبی کریم (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں ۔اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو قریب ہوتا ہے وہ حاضر بھی ہوتا ہے اور ناظر بھی ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میرے سامنے کر دی ہے، لہٰذا میں ساری دنیا کو اور جو کچھ دنیا میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کا سب یوں دیکھ رہا ہوں جیسے اس ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔( کنز العمال، کتاب الفضائل، الباب الاول فی فضائل سیدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، الفصل الثالث، ۶ / ۱۸۹، الحدیث: ۳۱۹۶۸، الجزء الحادی عشر)
شاہ عبد الحق محد ث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (اہلِ حق میں سے) اس مسئلہ میں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی حقیقی زندگی مبارکہ کے ساتھ دائم اور باقی ہیں اور امت کے احوال پر حاضر وناظر ہیں اور حقیقت کے طلبگاروں کو اور ان حضرات کو جو آپ کی طرف متوجہ ہیں ،ان کو فیض بھی پہنچاتے ہیں اور ان کی تربیت بھی فرماتے ہیں اور اس میں نہ تو مجاز کا شائبہ ہے نہ تاویل کا بلکہ تاویل کا وہم بھی نہیں۔(مکتوبات شیخ مع اخبارالاخیار،الرسالۃ الثامنۃ عشر سلوک اقرب السبل بالتوجّہ الی سیّد الرسل صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم، ص۱۵۵)
نوٹ:نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حاضر و ناظر ہونے سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’جاء الحق‘‘ اور اس مسئلے سے متعلق دیگر علماءِ اہلسنّت کی کتب کا مطالعہ فرمائیں ۔
کیا اللہ تعالیٰ کو حاضرو ناظر کہہ سکتے ہیں ؟
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو حاضر و ناظر ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر نہیں کہہ سکتے کیونکہ حاضر و ناظر کے جو لغوی اور حقیقی معنی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حاضر و ناظر کا اِطلاق بھی باری عَزَّوَجَلَّ پر نہ کیا جائے گا۔ علماءِ کرام کو اس کے اطلاق میں یہاں تک حاجت ہوئی کہ اس (کا اطلاق کرنے والے) پر سے نفیٔ تکفیر فرمائی۔(فتاویٰ رضویہ، کتاب الشتی، عروض وقوافی، ۲۹ / ۵۴)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں’’اُسے (یعنی اللہ تعالیٰ کو) حاضر و ناظر بھی نہیں کہہ سکتے، وہ شہید و بصیر ہے، حاضر و ناظر اس کی عطا سے اُس کے محبوب عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔( فتاویٰ رضویہ، عقائد وکلام ودینیات، ۲۹ / ۳۳۳)
{وَ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا: اورخوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔} یہاں سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دو اَوصاف بیان کئے گئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والااور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ۔(مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۹۴۴)
{وَ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا۔} آیت کے اس حصے میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چوتھے وصف کا بیان ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کوخدا کے حکم سے لوگوں کو خدا کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔(روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۶، ۷ / ۱۹۶، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۳۵۵، ملتقطاً)
{وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا: او ر چمکادینے والا ا ٓ فتاب۔} یہاں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پانچواں وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔ اس کے بارے میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :سراج کا ترجمہ آفتاب قرآنِ کریم کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے، جیسا کہ سورۂ نوح میں’’وَ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا‘‘ اور آخر پارہ کی پہلی سورت میں ہے ’’وَ جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا‘‘ اور درحقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پہنچائی اورکفر و شرک کے ظلماتِ شدیدہ کو اپنے نورِ حقیقت افروز سے دور کر دیا اور خَلق کے لئے معرفت و تَوحید ِالٰہی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کر دیں اور ضلالت کی وادیٔ تاریک میں راہ گم کرنے والوں کو اپنے انوارِ ہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نورِ نبوت سے ضمائر وبَصائر اور قُلوب و اَرواح کو منور کیا ، حقیقت میں آپ کا وجود مبارک ایسا آفتابِ عالَم تاب ہے جس نے ہزارہاآفتاب بنا دیئے ،اسی لئے اس کی صفت میں منیر ارشاد فرمایا گیا۔(خزائن العرفان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۷۸۴)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.