Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Ahzab Ayat 50 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(90) | Tarteeb e Tilawat:(33) | Mushtamil e Para:(21-22) | Total Aayaat:(73) |
Total Ruku:(9) | Total Words:(1501) | Total Letters:(5686) |
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ : اے نبی!۔} اس آیت میں نکاح سے متعلق نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیت بیان فرمائی گئی اورجن عورتوں سے نکاح کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے حلال فرمایا، یہاں ان کی چار قسمیں بیان کی گئی ہیں ،ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
(1)… وہ عورتیں جنہیں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مہر عطا فرمایا ،جیسے حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا۔
(2)…وہ عورتیں جو مال غنیمت میں حاصل ہوئیں ، جیسے حضرت صفیہ اورحضرت جویریہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، انہیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آزاد فرمایا اور ان سے نکاح کیا ۔
(3)…نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا کی بیٹیاں ، پھوپھیوں کی بیٹیاں ، ماموؤں کی بیٹیاں اور خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہجرت کی۔
ساتھ ہجرت کرنے سے مراد یہ ہے کہ ہجرت کرنے میں حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کی خواہ انہوں نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے ہجرت کی ہو یا بعد میں کی ہو اور یہ قید بھی افضل کا بیان ہے کیونکہ ساتھ ہجرت کرنے کے بغیر بھی ان میں سے ہر ایک (سے نکاح کرنا) حلال ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خاص حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں ان عورتوں کا حلال ہونا اس قید کے ساتھ مُقَیَّد ہو جیسا کہ حضرت اُمِّ ہانی بنتِ ابو طالب کی روایت اس طرف اشارہ کرتی ہے،چنانچہ آپ فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے نکاح کا پیغام دیا تو میں نے (بچوں والی ہونے کا) عذر پیش کیا،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرے عذر کو قبول فرما لیا،پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو میں ان کے لئے حلال نہ کی گئی کیونکہ میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہجرت نہ کی تھی۔
(4)… اس مومنہ عورت کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے حلال کر دیا جو مہر اور نکاح کی شرائط کے بغیر اپنی جان آپ کو ہِبہ کردے البتہ اس میں شرط یہ ہے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسے نکاح میں لانے کا ارادہ فرمائیں تو وہ حلال ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اس میں آئندہ کے حکم کابیان ہے کیونکہ اس آیت کے نزول کے وقت حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواج میں سے کوئی بھی ایسی نہ تھیں جو ہبہ کے ذریعے زوجیت سے مشرف ہوئی ہوں ۔
{خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ: یہ خاص تمہارے لیے ہے، دیگر مسلمانوں کیلئے نہیں ۔} یعنی مہر کے بغیر نکاح کرنا خاص آ پ کے لئے جائز ہے اُمت کے لئے نہیں ، امت پر بہرحال مہر واجب ہے خواہ وہ مہر مُعَیَّن نہ کریں یا جان بوجھ کر مہر کی نفی کردیں۔(تفسیرات احمدیہ، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۶۲۸)
{قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ: ہمیں معلوم ہے جو ہم نے مسلمانوں پر مقرر کیا ہے۔} یعنی ہم نے مسلمانوں پر ان کی بیویوں کے حق میں جو کچھ مقرر فرمایا ہے جیسے مہر ادا کرنا اور نکاح کے لئے گواہوں کا ہونا اور بیویوں میں باری کا واجب ہونا اور چار آزاد عورتوں تک کو نکاح میں لانااور ان کی ملکیت میں موجود کنیزوں کے بارے میں جو احکام لازم کئے وہ ہمیں معلوم ہیں ۔(تفسیرات احمدیہ، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۶۲۹)
اس سے معلوم ہوا کہ شرعاً مہر کی مقدار اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقرر ہے اور وہ دس درہم ہیں جس سے کم کرنا ممنوع ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ دس درہم سے کم کوئی مہر نہیں ۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۱۰، الحدیث: ۳)
{لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ: تاکہ تم پر کوئی تنگی نہ ہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نکاح کے معاملے میں آپ کے لئے خصوصی رعایتیں اس لئے ہیں تاکہ آپ پر کوئی تنگی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام گناہوں کوبخشنے والا اور ان پر مہربان ہے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.