Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Ahzab Ayat 9 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(90) | Tarteeb e Tilawat:(33) | Mushtamil e Para:(21-22) | Total Aayaat:(73) |
Total Ruku:(9) | Total Words:(1501) | Total Letters:(5686) |
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!۔} یہاں سے جنگِ اَحزاب کے اَحوال بیان کیے جارہے ہیں جسے غزوۂ خندق بھی کہتے ہیں اوریہ واقعہ جنگِ اُحد کے ایک سال بعد پیش آیا۔چنانچہ ارشاد فرما یاکہ اے ایمان والو!تم اللہ تعالیٰ کا وہ احسان یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت فرمایا جب تم پر قریش، غطفان، بنو قریظہ اور بنونَضِیرکے لشکر آئے اور انہوں نے تمہارا محاصرہ کر لیا تو ہم نے ان پر آندھی اور فرشتوں کے وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہیں آئے اور تمہارا خندق کھودنا اور میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری میں ثابت قدم رہنا اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے، اسی لئے اس نے کافروں کے خلاف تمہاری مدد فرمائی اور ان کے شر سے تمہیں محفوظ رکھا، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان پر ا س کا شکر اد ا کرو۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۴۸۴، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۳۳-۹۳۴، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۹، ۷ / ۱۴۶، ملتقطاً)
غزوۂ احزاب کا مختصر بیان :
غزوۂ احزاب کا مختصر بیان یہ ہے کہ یہ غزوہ سن 4 یا5 ہجری، شوال کے مہینے میں پیش آیا۔اس کا سبب یہ ہوا کہ جب بنی نَضِیر کے یہودیوں کو جلاوطن کیا گیا تو اُن کے سربراہ مکہ مکرمہ میں قریش کے پاس پہنچے اور انہیں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جنگ کرنے کی ترغیب دلائی اور وعدہ کیا کہ ہم تمہارا ساتھ دیں گے یہاں تک کہ مسلمان نیست و نابود ہوجائیں۔ ابوسفیان نے اس تحریک کی بہت قدر کی اور کہا کہ ہمیں دنیا میں وہ سب سے پیارا ہے جو محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کی دشمنی میں ہمارا ساتھ دے۔ پھر قریش نے ان یہودیوں سے کہا کہ تم پہلی کتاب والے ہو، ہمیں بتاؤ کہ ہم حق پر ہیں یا محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) یہودیوں نے کہا: تم ہی حق پر ہو۔ اس پر کفارِ قریش خوش ہوئے اور اسی واقعے سے متعلق سورہ نساء کی آیت نمبر51 ’’ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ‘‘ نازل ہوئی۔ پھر وہ یہودی دیگر قبائل غطفان، قیس اورغیلان وغیرہ میں گئے، وہاں بھی یہی تحریک چلائی تو وہ سب بھی ان کے موافق ہوگئے۔ اس طرح ان یہودیوں نے جابجا دورے کئے اور عرب کے قبیلہ قبیلہ کو مسلمانوں کے خلاف تیار کرلیا۔ جب سب لوگ تیار ہوگئے تو قبیلہ خزاعہ کے چند لوگوں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی ان زبردست تیاریوں کی اطلاع دی۔ یہ اطلاع پاتے ہی حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے مشورے سے خندق کھدوانی شروع کردی۔ اس خندق میں مسلمانوں کے ساتھ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود بھی کام کیا۔ مسلمان خندق تیار کرکے فارغ ہوئے ہی تھے کہ مشرکین بارہ ہزار افرادکا بڑا لشکر لے کر اُن پر ٹوٹ پڑے اور مدینہ طیبہ کا محاصرہ کرلیا۔خندق مسلمانوں کے اور اُن کے درمیان حائل تھی اور اسے دیکھ کر سب کفارحیران ہوئے اور کہنے لگے کہ’’ یہ ایسی تدبیر ہے جس سے عرب لوگ اب تک واقف نہ تھے۔ اب انہوں نے مسلمانوں پر تیر اندازی شروع کر دی۔جب اس محاصرے کو 15 یا24 دن گزرے تو مسلمانوں پر خوف غالب ہوا اور وہ بہت گھبرائے اور پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور کافروں پر تیز ہوا بھیجی، انتہائی سرد اور اندھیری رات میں اُس ہوا نے کافروں کے خیمے گرادیئے، طنابیں توڑدیں ، کھونٹے اکھاڑ دیئے، ہانڈیاں الٹ دیں اور آدمی زمین پر گرنے لگے اور اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھیج دیئے جنہوں نے کفار کو لرزا دیا اور اُن کے دلوں میں دہشت ڈال دی مگر اس جنگ میں فرشتوں نے لڑائی نہیں کی۔ پھر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو خبر لینے کے لئے بھیجا۔ اس وقت انتہائی سخت سردی تھی اور یہ ہتھیار لگا کر روانہ ہوئے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے روانہ ہوتے وقت ان کے چہرے اور بدن پر دستِ مبارک پھیرا جس کی برکت سے ان پر سردی اثر نہ کرسکی اور یہ دشمن کے لشکر میں پہنچ گئے۔ وہاں تیز ہوا چل رہی تھی، سنگریزے اڑ اڑ کر لوگوں کو لگ رہے تھے اور آنکھوں میں گرد پڑرہی تھی،الغرض عجب پریشانی کا عالَم تھا۔ کافروں کے لشکر کے سردار ابوسفیان ہوا کا یہ عالَم دیکھ کر اُٹھے اور انہوں نے قریش کو پکار کر کہا کہ جاسوسوں سے ہوشیار رہنا، ہر شخص اپنے برابر والے کو دیکھ لے۔ یہ اعلان ہونے کے بعد ہر ایک شخص نے اپنے برابر والے کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دانائی سے اپنے دائیں طرف موجود شخص کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا :تو کون ہے؟ اُس نے کہا :میں فلاں بن فلاں ہوں ۔ اس کے بعد ابوسفیان نے کہا:اے گروہِ قریش! تم یہاں نہیں ٹھہر سکتے، گھوڑے اور اونٹ ہلاک ہوچکے ہیں ،بنی قریظہ اپنے عہد سے پھر گئے اور ہمیں اُن کی طرف سے اندیشہ ناک خبریں پہنچی ہیں ۔ ہوا نے جو حال کیا ہے وہ تم دیکھ ہی رہے ہو، بس اب یہاں سے کوچ کردو اورمیں کوچ کررہا ہوں ۔ ابوسفیان یہ کہہ کر اپنی اونٹنی پر سوار ہوگئے اور لشکر میں کو چ کوچ کا شور مچ گیا۔ کافروں پر جو ہوا آئی وہ ہر چیز کو الٹ رہی تھی مگر یہ ہوا اس لشکر سے باہر نہ تھی۔ اب یہ لشکر بھاگ نکلا اور سامان کا سواریوں پر لاد کر لے جانا اس کے لئے دشوار ہو گیا،اس لئے کثیر سامان وہیں چھوڑ گیا۔(جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۱۵۵-۱۵۶، ملخصاً)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.