Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Anam Ayat 111 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(55) | Tarteeb e Tilawat:(6) | Mushtamil e Para:(07-08) | Total Aayaat:(165) |
Total Ruku:(20) | Total Words:(3442) | Total Letters:(12559) |
{ وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةَ:اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اُتار دیتے۔}پچھلی آیت میں اجمالی طور پر بیان ہوا تھا کہ نشانیاں طلب کرنے والے کفار کے مطالبات پورے کر دئیے جائیں تو بھی وہ ایمان نہ لائیں گے اور اس آیتِ مبارکہ میں اس اجمال کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ شانِ نزول: کفارِ مکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مذاق کے طور پر کہا کرتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے مردوں کو زندہ کردیجئے تاکہ ہم ان سے پوچھیں کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو فرماتے ہیں وہ حق ہے یا نہیں اور آپ ہمیں فرشتے دکھائیے جو ہمارے سامنے آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیں یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لائیے۔ ان کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۴۷)
اور فرمایا گیا کہ ’’ اے محبوب! اگر ہم کفارکے مطالبے کے مطابق ان کی طرف فرشتے اُتار دیں جنہیں وہ ان کی اصلی شکل میں دیکھ لیں اور وہ ان سے آپ کی رسالت کی گواہی سن لیں۔ یونہی اگر ہم ان کے مطلوبہ یا عام مردے زندہ کر کے ان کے سامنے کھڑے کر دیں تاکہ یہ ان سے معلوم کر لیں کہ آپ جو پیغام لائے ہیں وہ حق ہے یا نہیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے، بلکہ اگر ہم ا ن کے مطالبات سے زائد مخلوقات میں سے ہر خشک و تر، شجرو حجر، نباتات و حیوانات ان کے سامنے جمع کردیں تب بھی یہ لوگ ایمان لائیں گے اور نہ آپ کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی آپ کی پیروی کریں گے البتہ جن کی قسمت میں ایمان لکھا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی مرضی جن کے ایمان کے متعلق ہوگی وہ ایمان لائیں گے۔ (تفسیر طبری، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۵ / ۳۱۱)
اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق دو اہم مسائل:
اس مقام پر دو اہم مسائل ذہن نشین رکھیں :
(1)…اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا فرمایا اور جیسا ہونے والا تھا اور جیسا کوئی کرنے والا تھا وہ سب اللہ تعالیٰ کے علمِ ازلی میں تھا اور اس نے وہی لکھ دیا، تو یہ نہیں کہ جیسا اس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا، زید کے ذمے برائی لکھی اس لئے کہ زید برائی کرنے والا تھا اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا تووہ اس کے لئے بھلائی لکھتا تو اللہ تعالیٰ کے علم یا اس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔
(2)… یہ درست ہے کہ بندوں کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے ارادہ، اس کی مشیت اور اس کی قضاء سے وجود پذیر ہوتے ہیں لیکن قادر و قدیر رب عَزَّوَجَلَّ نے انسان کو پتھر اور دیگر جمادات کی طرح بے بس، مجبور اور بالکل بے اختیار نہیں بنا یا بلکہ اسے ایک قسم کا اختیار دیا ہے کہ کوئی کام چاہے تو کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ اپنا برا بھلا، نفع و نقصان پہچان سکے، پھر نیکی یا بدی، اچھائی یا برائی میں سے جس کام کو اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قوت اس انسان میں پیدا فرما دیتا ہے اور اسی اختیار کے اعتبار سے وہ جزا و سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر انسان نیکی یا بدی، اچھائی یا برائی پر کوئی اختیار ہی نہیں رکھتا تو انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہدایت کے لئے مبعوث فرمانا، انسان کو احکام کا مُکَلَّف کرنا اور اسے اس کے اعمال کی جزاء و سزا دینا سب بے معنی اور عبث ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کا کوئی کام عبث نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایمان وہی لائیں گے جن کے ایمان کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرمائے گا اور کفر وہی کریں گے جن کے کفر کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے کفر کا اس لئے ارادہ فرماتا ہے کہ وہ کفر کو اختیار کرتے ہیں۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.