Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Anam Ayat 120 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(55) | Tarteeb e Tilawat:(6) | Mushtamil e Para:(07-08) | Total Aayaat:(165) |
Total Ruku:(20) | Total Words:(3442) | Total Letters:(12559) |
{ وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗ:اور ظاہری اور باطنی سب گناہ چھوڑ دو۔} ظاہری اور باطنی گناہ کی تفسیر میں دو قول ہیں : (1)ظاہری گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں کہ جن کا ارتکاب اعلانیہ اور مجمعِ عام میں ہو اور باطنی گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو چھپ کر کئے جائیں۔ (2)ظاہری گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو ظاہری اعضاء سے کئے جائیں اور باطنی گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو دل سے کئے جائیں جیسے حسد، تکبر، ریاکاری ، بغض و کینہ ،بدگمانی اور برے کاموں کو پسند کرنا وغیرہ۔( صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۶۲۳)اس کے علاوہ بھی کئی اقوال ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں ہر طرح کے گناہوں سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے چاہے گناہ کا تعلق جسم سے ہو یا دل سے یا نیت و ارادہ سے، علانیہ گناہ ہو یا چھپ کر۔([1])
{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ: بیشک جو لوگ گناہ کماتے ہیں۔} یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے منع کئے ہوئے کام کرتے ہیں اور ان گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کئے ہیں تو انہیں عنقریب آخرت میں دنیا میں کئے ہوئے گناہوں کی سز ادی جائے گی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۵۱)
توبہ کرنے کی اہمیت اور اس کی ترغیب:
یاد رہے کہ جس مسلمان نے مرنے سے پہلے پہلے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لی تو اسے آخرت میں سزا نہ ہو گی البتہ جس مسلمان نے اپنے گناہوں سے توبہ نہ کی تو ا س کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے ، وہ چاہے تو اسے اس کے گناہوں کی سزا دے دے اور چاہے تو اپنے فضل و کرم سے اس کے گناہ معاف کر دے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہونے کی امید باندھ کر گناہوں میں مصروف رہنا انتہائی نادانی ہے کیونکہ گناہگاروں کی ایک تعداد ضرور جہنم میں جائے گی اور کوئی گناہگار یہ نہیں جانتا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کویقینی طور پر معاف کر دے گا ۔ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ بے شک سب گناہ گار مشیت کے خطرے میں ہیں بلکہ اطاعت گزار بھی نہیں جانتے کہ ان کا خاتمہ کیساہو گا تواے گناہگارو! تم دھوکے میں مت رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہر گناہگار کو حاصل نہ ہو گی اور نہ ہی تمہیں یہ معلوم ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جنہیں معاف کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے۔(روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۳ / ۹۴)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو انسان یہ آس لگائے بیٹھا ہے کہ میں مومن ہوں اور اللہ تعالیٰ مومنوں کے گناہ معاف کر دے گا تواسے یہ تصور کرنا چاہئے کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف نہ کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب انسان اطاعت نہ کرے تو ا س کا ایمانی درخت کمزو ر و ناتواں ہو جائے اور نزع کے وقت موت کی سختیوں کے تند جھونکوں سے اکھڑ جائے کیونکہ ایمان ایک ایسا درخت ہے جس کی پرورش عبادت کے پانی سے ہوتی ہے اور جب اسے یہ پانی نہ ملا اور ا س نے قوت نہ پکڑی تو اس کے اکھڑ جانے کے خطرات ہر وقت ا س پر منڈلاتے رہیں گے۔ اگر وہ اپناایمان سلامت لے گیا تو یہ بھی امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بخش دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے عذاب میں مبتلاء کر دے، لہٰذا اس آسرے میں بیٹھے رہنا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے گا بہت بڑی حماقت ہے اور اِس شخص کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو اپنے مال و اسباب کو تباہ کر کے اور بال بچوں کو بھوکا چھوڑ کر یہ خیال کرے کہ شاید ویرانے میں خزانہ مل جائے یا اِس شخص کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو کسی ایسے شہر میں رہ رہا ہو جسے لوٹا جا رہا ہو اور وہ اپنے خزانے ا س امید پر نہ چھپائے کہ ہو سکتا ہے جب لوٹنے والا ہمارے گھر میں آئے تو وہ آتے ہی مر جائے گا یا اندھا ہو جائے گا یا وہ میرے گھر کو دیکھ نہ سکے گا، یہ سب باتیں اگرچہ ممکن ہیں لیکن ان پر اعتماد کرنا اور احتیاط سے ہاتھ اٹھا لینا حماقت ہے۔(کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل اول در توبہ، ۲ / ۷۷۳-۷۷۴)
آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں ’’گنا ہ ایمان کے لیے اس طرح ( نقصا ن دہ) ہیں جیسے مضرِ صحت کھانے جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں ، وہ معدے میں جمع ہو تے رہتے ہیں حتّٰی کہ اَخلاط (یعنی صفراء ،بلغم وغیر ہ) مزاج کو بدل دیتے ہیں اور اس کو پتہ بھی نہیں چلتا یہاں تک کہ اس کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ اچانک بیمار ہو جا تا ہے اور پھر اچانک مر جاتا ہے تو گنا ہو ں کا معاملہ بھی یہی ہے، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ جب اس فا نی دنیا میں ہلاکت کے خوف سے وہ زہر سے بچتا ہے اور ان کھا نو ں سے فوری طور پر بھی اور ہر حال میں بچتا ہے جو نقصان دہ ہو تے ہیں تو ابد ی ہلاکت سے ڈرنے والے پر بدرجہ اولیٰ گنا ہوں سے اجتنا ب ضروری ہے اور جب زہر کھانے والے پرلازم ہے کہ جو ں ہی نادم ہو قے کرے اور اس کھا نے سے رجوع کرے اور اسے معدے سے نکال دے اور یہ عمل فوری طور پر کرے تاکہ اس کا جسم ہلاکت سے بچ جا ئے حالانکہ اس کا نقصان صرف دنیوی ہے جبکہ دین کے معاملے میں گناہوں کی صورت میں زہر کھانا بدر جہ اَولیٰ نقصان دہ ہے تو اسے اس سے رجو ع کرنا چا ہیے اور جس قدر ممکن ہو تَدارُک کرے جب تک اس کے لیے مہلت ہے اور وہ اس کی زند گی ہے کیوں کہ جس کو اس زہر کا خوف اس لیے ہے کہ باقی رہنے والی آخرت سے محروم ہو جا ئے گا جس میں ہمیشہ کی نعمتیں اور بہت بڑی سلطنت ہے اور اس کے فوت ہو نے سے جہنم کی آگ اور ہمیشہ کے عذاب کا سامنا ہوگا اور دنیوی زندگی اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کیوں کہ اُس کی کو ئی انتہا نہیں تو اس کے لئے گناہوں سے تو بہ کرنے میں جلدی کرنا ضروری ہے تاکہ گنا ہو ں کا زہر روح ایمان پر اثر انداز نہ ہو اور (اگر یہ روح ایمان پر اثرانداز ہو گیاتو) یہ ایسا اثر ہوگا جس کا ڈاکٹروں کے پاس بھی کو ئی علا ج نہیں اور نہ ہی اس کے بعد کوئی پرہیز اثر کرے گی، اس کے بعد نصیحت کرنے والوں کی نصیحت اور واعظین کا وعظ بھی فائد ہ نہیں دے گا اور اس پر یہ بات ثابت ہو جا ئے گی کہ وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہے (احیاء علوم الدین، کتاب التوبۃ، بیان انّ وجوب التوبۃ علی الفور، ۴ / ۱۰-۱۱)۔([2])
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.