Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Anam Ayat 140 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(55) | Tarteeb e Tilawat:(6) | Mushtamil e Para:(07-08) | Total Aayaat:(165) |
Total Ruku:(20) | Total Words:(3442) | Total Letters:(12559) |
{ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ:بیشک وہ لوگ تباہ ہوگئے جواپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں۔} شا نِ نزول: یہ آیت زمانۂ جاہلیت کے اُن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی لڑکیوں کو نہایت سنگ دلی اور بے رحمی کے ساتھ زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ قبیلہ ربیعہ اور مُضَر وغیرہ قبائل میں اس کا بہت رواج تھا اور جاہلیت کے بعض لوگ لڑکوں کو بھی قتل کرتے تھے اور بے رحمی کا یہ عالم تھا کہ کتّوں کی پرورش کرتے اور اولاد کو قتل کرتے تھے۔ اُن کی نسبت یہ ارشاد ہوا کہ ’’ وہ تباہ ہوئے‘‘ اس میں شک نہیں کہ اولا د اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کی ہلاکت سے اپنی تعداد کم ہوتی ہے، اپنی نسل مٹتی ہے، یہ دنیا کا خسارہ ہے، گھر کی تباہی ہے اور آخرت میں اس پر عذابِ عظیم ہے، تو یہ عمل دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہوا اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کرلینا اور اولاد جیسی عزیز اور پیاری چیز کے ساتھ اس قسم کی سفاکی اور بے دردی گوارا کرنا انتہا درجہ کی حماقت اور جہالت ہے۔
دورِ جاہلیت میں اولاد کو قتل کرنے کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ انہیں تنگدستی کا خوف لاحق ہوتا اور وہ اس ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کر دیتے تھے کہ انہیں کھلائیں پلائیں گے کہا ں سے اور ان کے لباس اور دیگر ضروریات کا انتظام کیسے کریں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس حرکت سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا‘‘ (بنی اسرائیل:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور غربت کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی، بیشک انہیں قتل کرناکبیرہ گناہ ہے۔
افسوس! فی زمانہ بہت سے مسلمان بھی دورِ جاہلیت کے کفار کا طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور وہ بھی اس ڈر سے دنیا میں آتے ہی یا ماں کے پیٹ میں ہی بچے کوقتل کروا دیتے ہیں کہ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے اور یہ عمل خاص طور پر اس وقت کرتے ہیں جب انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں پلنے والی جان بچی ہے۔ افسوس کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو رازق ماننے والے بھی اس فعلِ قبیح کا اِرتِکاب کررہے ہیں۔
یہاں ایک مسئلہ یاد رہے کہ ’’ جب حمل میں جان پڑجائے جس کی مدت علماء نے چار مہینے بیان کی ہے توحمل گرانا حرام ہے کہ یہ بھی اولاد کا قتل ہے اور اس سے پہلے اگر شرعی ضرورت ہو تو اِسقاطِ حمل جائز ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۲۴ / ۲۰۱،۲۰۷)
{ وَحَرَّمُوْا:حرام قرار دیتے ہیں۔} یعنی مشرکینِ عرب بحیرہ ،سائبہ اور حامی وغیرہ جن جانوروں کا اوپر ذکر ہوا انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھتے ہوئے حرام قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ایسے مذموم افعال کا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے ان کا یہ خیال اللہ عَزَّوَجَلَّ پرافتراء ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز میں اصل اباحت ہے، کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہر چیز ہمارے رزق کے لئے پیدا فرمائی، ان میں سے جسے حرام فرما دیا وہ حرام ہے اور جسے حلال فرمایا یا جس سے سکوت فرمایا وہ حلال ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے:
’’ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا‘‘(بقرہ:۲۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے بنایا۔
حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی فرمائی تو وہ اس میں سے ہے جس سے معافی دی۔ (ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفراء، ۳ / ۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲) حضرت علامہ ملا علی قاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔ ( یعنی جس چیز کی حلت و حرمت سے متعلق قرآن و حدیث میں خاموشی ہو وہ حلال ہے۔) (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الاطعمۃ، الفصل الثانی،۸ / ۵۷، تحت الحدیث: ۴۲۲۸)