Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Anbiya Ayat 1 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(73) | Tarteeb e Tilawat:(21) | Mushtamil e Para:(17) | Total Aayaat:(112) |
Total Ruku:(7) | Total Words:(1323) | Total Letters:(4965) |
{ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ
حِسَابُهُمْ:لوگوں کا
حساب قریب آگیا۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے یہ آیت ان
لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو نہیں مانتے
تھے۔دوسرا قول یہ ہے کہ اِس آیت میں اگرچہ اُس وقت کفارِ قریش کی طرف اشارہ کیا
گیاہے لیکن لفظ’’اَلنَّاسِ‘‘ میں عموم ہے(اور اس سے تمام لوگ مراد ہیں ۔)نیزیہاں قیامت کے دن کو گزرے ہوئے زمانہ کے اعتبار
سے قریب فرمایا گیاکیونکہ جتنے دن گزرتے جاتے ہیں آنے والا دن قریب ہوتا جاتا ہے ۔
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے
کہ لوگوں نے دنیا میں جو بھی عمل کئے ہیں اور ان کے بدنوں ، ان کے جسموں ، ان کے
کھانے پینے کی چیزوں اور ان کے ملبوسات میں اور ان کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے
لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں جو بھی
نعمتیں عطا کی ہیں، ان کے حساب کا وقت(روزِقیامت)قریب آ گیا ہے اوراس وقت ان سے پوچھا جائے گا کہ ان نعمتوں کے بدلے
میں انہوں نے کیا عمل کئے،آیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور ا س کے دئیے ہوئے حکم پر عمل کیا اور جس چیز
سے اس نے منع کیا اس سے رک گئے یا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی ،اس سنگین صورتِ حال کے باوجود لوگوں کی
غفلت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کئے جانے سے اور قیامت کے دن پیش آنے والی
عظیم مصیبتوں اور شدید ہولناکیوں سے بے فکر ہیں اور اس کے لئے تیاری کرنے سے منہ
پھیرے ہوئے ہیں اورانہیں اپنے انجام کی کوئی پرواہ نہیں۔(خازن،
الانبیاء، تحت الآیۃ:
۱، ۳ / ۲۷۰-۲۷۱، مدارک،
الانبیاء، تحت الآیۃ:
۱، ص۷۰۹، تفسیر طبری، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۳، ملتقطاً)
اُخروی حساب سے غفلت کے
معاملے میں کفار کی روش اور مسلمانوں کا حال :
یہاں اگرچہ کفار کی روش
کو بیان کیا گیا ہے لیکن افسوس !فی زمانہ مسلمانوں میں بھی قیامت کے دن اپنے
اعمال کے حساب سے غفلت بہت عام ہو چکی ہے اور آج انہیں بھی جب نصیحت کی جاتی
ہے اورموت کی تکلیف، قبر کی تنگی، قیامت کی ہولناکی، حساب کی سختی اور جہنم
کے دردناک عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو یہ عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی بجائے منہ پھیر
کر گزر جاتے ہیں، حالانکہ مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایسا طرزِ عمل اختیار کرے
جو کافروں اور مشرکوں کا شیوہ ہو۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’اے انسان! تجھے اپنے کریم رب عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھاہے کہ تو
دروازے بند کرکے، پردے ٹکا کر اور لوگوں سے چھپ کر فسق وفجور اور گناہوں میں مبتلا
ہو گیا! (تو لوگوں کے خبردار ہونے
سے ڈرتا ہے حالانکہ تجھے پیدا کرنے والے سے تیرا کوئی حال چھپا ہوا نہیں ) جب تیرے اَعضا تیرے خلاف
گواہی دیں گے(اور جو کچھ تو لوگوں سے چھپ
کر کرتا رہا وہ سب ظاہر کر دیں گے) تو اس وقت تو کیا کرے گا۔ اے غافلوں کی جماعت! تمہارے لئے مکمل
خرابی ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے پاس سیّد
المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھیجے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر روشن کتاب نازل فرمائے(جس میں ہر چیز کی تفصیل موجود ہے)اور تمہیں قیامت کے اوصاف کی خبر دے، پھر
تمہاری غفلت سے بھی تمہیں آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائے کہ : ’’اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ
حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱) مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ
ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ(۲) لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ‘‘(انبیاء:۱-۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: لوگوں کا حساب قریب آگیااور وہ غفلت میں منہ
پھیرے ہوئے ہیں ۔ جب ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے
کھیلتے ہوئے ہی سنتے ہیں ۔ ان کے دل کھیل میں پڑے ہوئے ہیں ۔
پھر وہ ہمیں قیامت قریب ہونے کے بارے میں بتاتے ہوئے
ارشادفرمائے کہ
’’اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ
وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ‘‘(قمر:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔
اور ارشادفرمائے کہ
’’ اِنَّهُمْ
یَرَوْنَهٗ بَعِیْدًاۙ(۶) وَّ نَرٰىهُ قَرِیْبًا‘‘(معارج۶،۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ اسے دور سمجھ رہے ہیں ۔اور ہماسے قریب
دیکھ رہے ہیں ۔
اور ارشاد فرمائے کہ:
’’ وَ مَا یُدْرِیْكَ
لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا‘‘(احزاب:۶۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تم کیا جانو شاید قیامت قریب ہی ہو۔
اس کے بعد تمہاری سب سے
اچھی حالت تو یہ ہونی چاہئے کہ تم اس قرآنِ عظیم کے دئیے درس پر عمل کرو، لیکن اس
کے برعکس تمہارا حا ل یہ ہے کہ تم اس قرآن کے معانی میں غوروفکر نہیں کرتے اور
روزِ قیامت کے بے شمار اَوصاف اور ناموں کو(عبرت کی نگاہ سے) نہیں دیکھتے اور اس دن کی مصیبتوں سے نجات حاصل
کرنے کے لیے کوشش نہیں کرتے۔ ہم اس غفلت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں (اور دعا کرتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ اپنی وسیع رحمت سے اس غفلت کو دور فرمائے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر
الثانی من کتاب ذکر الموت فی احوال المیت۔۔۔ الخ، صفۃ یوم القیامۃ ودواہیہ واسامیہ، ۵ / ۲۷۶)اور ہر مسلمان کو اس فانی
دنیا سے بے رغبت ہو کر نیک اعمال کی کثرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ترغیب کے لئے
یہاں دو حکایات ملاحظہ ہوں :
مجھے تمہاری جائیداد کی
کوئی ضرورت نہیں :
حضرت عامر بن ربیعہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک عربی ان کے پاس آیا، آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کانہایت اِکرام
کیا اوراس کے متعلق حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کلام کیا۔ وہ شخص جب دوبارہ حضرت عامر بن ربیعہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس آیا تواس نے کہا کہ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایک وادی طلب کی ہے جس سے بہتر عرب
میں کوئی وادی نہیں ہے۔ میں چاہتا
ہوں کہ تمہارے لیے اس میں سے کچھ حصہ علیحدہ کردوں جوتمہارے اورتمہاری اولا دکے
کام آئے۔ حضرت عامربن ربیعہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے
اس سے کہا کہ’’ ہمیں تیری جائیداد کی کوئی ضرورت نہیں،کیونکہ آج ایک سورت نازل
ہوئی ہے اس نے ہمیں دنیا کی لذتیں بھلا دی ہیں (اوراس میں یہ آیت ہے)’’ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ
مُّعْرِضُوْنَ‘‘لوگوں کا حساب قریب
آگیا اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔(ابن
عساکر، حرف العین، ذکر من اسمہ عامر، عامر بن ربیعۃ بن کعب بن مالک۔۔۔ الخ، ۲۵ / ۳۲۷)
جب حساب کا وقت قریب ہے
تو یہ دیوار نہیں بنے گی:
ایک روایت میں ہے کہ رسول
کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ
میں سے ایک صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ دیوار بنا رہے تھے، جس دن
یہ سورت نازل ہوئی ا س دن ان کے پاس سے ایک شخص گزرا تو انہوں نے اس سے پوچھا ’’ آج قرآن پاک میں کیا نازل ہوا
ہے ؟اس نے بتایا کہ یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ہے ’’اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ
غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ‘‘ لوگوں کا حساب قریب آگیااور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔
‘‘ان صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جب یہ سناتواسی وقت دیوار بنانے سے ہاتھ جھاڑ
لیے اور کہا: اللہ عَزَّوَجَلَّ
کی قسم !جب حساب کاوقت
قریب آگیا ہے تو پھر یہ دیوار نہیں بنے گی۔(قرطبی،
الانبیاء، تحت الآیۃ:
۱، ۶ / ۱۴۵، الجزء
الحادی عشر)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس
کی توفیق سے ہمارے دلوں میں بھی دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر پیدا ہوجائے اور
ہم بھی اپنی اُخروی زندگی بہتر سے بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہو جائیں ۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.