Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Anbiya Ayat 109 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(73) | Tarteeb e Tilawat:(21) | Mushtamil e Para:(17) | Total Aayaat:(112) |
Total Ruku:(7) | Total Words:(1323) | Total Letters:(4965) |
{فَاِنْ تَوَلَّوْا:پھر اگر وہ منہ پھیریں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ پھر اگر وہ کفار اسلام قبول کرنے سے منہ پھیریں تو آپ ان سے فرما دیں کہ میں نے تم سے لڑائی کا اعلان کر دیا ہے اور اس سے متعلق جاننے میں ہم اور تم برابر ہیں لیکن میں نہیں جانتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم سے جنگ کرنے کی اجازت کب ملے گی۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، پھر اگر وہ کفار منہ پھیریں اور اسلام نہ لائیں تو آپ ان سے فرما دیں : اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے متعلق جس چیز کا مجھے حکم دیا گیا میں نے تمہیں برابری کی بنیاد پر ا س کے بارے میں خبردار کردیا ہے اور رسالت کی تبلیغ کرنے اور نصیحت کرنے میں تمہارے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر نہیں جانتا کہ تمہیں عذاب یا قیامت کاجو وعدہ دیا جاتاہے وہ قریب ہے یا دور ہے۔(تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۸ / ۱۹۵، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۵ / ۵۳۰، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۲۷۸، ملتقطاً)
{وَ اِنْ اَدْرِیْ:اور میں نہیں جانتا ۔} آیت کے اس حصے کے بارے میں صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے خزائن العرفان میں جو کلام فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں دِرایت کی نفی فرمائی گئی ہے۔ درایت ’’اندازے اور قِیاس سے جاننے ‘‘کو کہتے ہیں جیسا کہ امام راغب اصفہانی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مفرداتِ امام راغب میں اور علامہ شامی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ردُّالمحتار میں ذکر کیا ہے، اور قرآن کریم کے اِطلاقات اس پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ فرمایا:
’’ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِیْمَانُ‘‘(شوری:۵۲)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس سے پہلے نہ تم کتاب کوجانتے تھے نہ شریعت کے احکام کی تفصیل کو۔)
اسی لئے اللہ تعالیٰ کے لئے درایت کالفظ استعمال نہیں کیا جاتا ،لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر محض اپنی عقل اور قیاس سے جاننے کی نفی ہے نہ کہ مُطْلق علم کی اور مطلق علم کی نفی کیسے ہو سکتی ہے جب کہ اسی رکوع کے شروع میں آ چکا ہے ’’وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ‘‘یعنی اور سچا وعدہ قریب آگیا۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وعدے کا قریب اور دور ہونا کسی طرح معلوم نہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہاں اپنی عقل اور قیاس سے جاننے کی نفی ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جاننے کی نفی ہے۔(خزائن العرفان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۶۱۷)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.