Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Ankabut Ayat 45 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(85) | Tarteeb e Tilawat:(29) | Mushtamil e Para:(20-21) | Total Aayaat:(69) |
Total Ruku:(7) | Total Words:(1120) | Total Letters:(4242) |
{اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ: اس کتاب کی تلاوت کروجس کی تمہاری طرف وحی کی گئی ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی طرف جو قرآن مجید نازل کیا گیا ہے، اس کی تلاوت کرتے رہیں کیونکہ اس کی تلاوت عبادت بھی ہے ،اس میں لوگوں کے لئے وعظ و نصیحت بھی ہے اور اس میں احکام ، آداب اور اَخلاقی اچھائیوں کی تعلیم بھی ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ مکہ والو ں کے کفر پر اَفسُردہ ہیں توآپ اس کتاب کی تلاوت کریں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے تاکہ آپ جان جائیں کہ آپ کی طرح حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور دیگر اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی نبوت اور رسالت کی ذمہ داری پر فائز تھے ،انہوں نے رسالت کی تبلیغ کی اور (اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیّت پر) دلائل قائم کرنے میں انتہائی کوشش کی لیکن ان کی قومیں گمراہی اور جہالت سے نہ بچ سکیں ،یوں آپ کے دل کو تسلی حاصل ہو گی۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۷۳، تفسیرکبیر، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۹ / ۶۰، ملتقطاً)
قرآنِ مجید دیکھ کر پڑھنے کی فضیلت اور ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ نماز کے علاوہ بھی قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہنا چاہئے ۔یاد رہے کہ (نماز کےعلاوہ) قرآنِ مجید دیکھ کر پڑھنا زبانی پڑھنے سے افضل ہے کیونکہ یہ پڑھنا بھی ہے ،دیکھنا بھی اور ہاتھ سے اس کا چھونا بھی اور یہ سب چیزیں عبادت ہیں ۔(بہار شریعت، حصہ سوم، قرآن مجید پڑھنے کا بیان، مسائل قراء ت بیرون نماز، ۱ / ۵۵۰، ملخصاً)
اور اس کی ترغیب کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم اپنی آنکھوں کو اس کی عبادت میں سے حصہ دو۔عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آنکھ کا عبادت میں سے حصہ کیا ہے؟ارشاد فرمایا’’قرآن مجید کو دیکھ کر پڑھنا،اس (کی آیات اور معانی میں ) میں غوروفکر کرنا اور اس میں بیان کئے گئے عجائبات کی تلاوت کرتے وقت عبرت و نصیحت حاصل کرنا۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی القراء ۃ من المصحف، ۲ / ۴۰۸، الحدیث: ۲۲۲۲) اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ کر بھی قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے اور اس کی آیات و معانی میں غورو فکر کرنے اور اس میں ذکر کئے گئے واقعات اور دیگر چیزوں سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ: اور نماز قائم کرو۔} ارشاد فرمایاکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نماز قائم کرتے رہیں ، بیشک نماز بے حیائی اور ان چیزوں سے روکتی ہے جو شرعی طور پر ممنوع ہیں ۔یاد رہے کہ یہاں نماز قائم کرتے رہنے کا حکم واضح طور پر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیا گیا ہے اور ضمنی طور پر یہی حکم آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے لئے بھی ہے۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۷۴)
نماز بے حیائیوں اور شرعی ممنوعات سے روکتی ہے:
آیت میں بیان ہو اکہ نماز بے حیائیوں اور بری باتوں سے روکتی ہے، لہٰذا جو شخص نماز کا پابند ہوتا ہے اور اسے اچھی طرح ادا کرتا ہے تو ا س کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ ان برائیوں کو ترک کر دیتا ہے جن میں مبتلا تھا۔ یہاں اسی سے متعلق دو رِوایات ملاحظہ ہوں:
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ایک انصاری جوان سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا اِرتکاب کرتا تھا، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کی شکایت کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا’’ اس کی نماز کسی دن اسے اِن باتوں سے روک دے گی۔ چنانچہ کچھ ہی عرصےمیں اس نے توبہ کر لی اور اس کا حال بہتر ہو گیا۔(ابو سعود، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۲۶۱)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ایک شخص نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی :فلاں آدمی رات میں نماز پڑھتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’عنقریب نماز اسے اس چیز سے روک دے گی جو تو کہہ رہا ہے۔(مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۴۵۷، الحدیث: ۹۷۸۵)
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے باز نہیں آتے اور بری عادتوں سے نہیں رکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اس طرح نماز نہیں پڑھتے جیسے نماز پڑھنے کا حق ہے مثلاً نماز کے ارکان و شرائط کو ان کے حقوق کے ساتھ اور صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے ،نماز میں خشوع و خضوع کی کَیفِیَّت ان پر طاری نہیں ہوتی اور نماز کی ادائیگی غفلت سے کرتے ہیں ،یہ ان کی نما زہوتی ہے جو ظاہری نماز تو ہے لیکن حقیقی اور کامل نماز نہیں ۔ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جس کی نماز اس کو بے حیائی اور ممنوعات سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں ۔( درمنثور، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۶۶)
اورحضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو اس کی نماز بے حیائی اور برائی سے نہ روکے تو اسے اللہ تعالیٰ سے دوری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا (کیونکہ ا س کی نماز ایسی نہیں جس پر ثواب ملے بلکہ وہ نماز اس کے حق میں وبال ہے اور اس کی وجہ سے بندہ عذاب کا حق دار ہے۔)( معجم الکبیر، طاؤس عن ابن عباس، ۱۱ / ۴۶، الحدیث: ۱۱۰۲۵)
لہٰذا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ بے حیائیوں اور برائیوں سے باز آ جائے تو اس طرح نماز ادا کیا کرے جیسے نماز ادا کرنے کا حق ہے۔ترغیب کے لئے یہاں نماز سے متعلق حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور دیگر بزرگانِ دین کے احوال پر مشتمل 4 واقعات ملاحظہ ہوں :
( 1)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کر رہے ہوتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو (آپ اللہ تعالیٰ کی عظمت میں اس قدر مشغول ہو جاتے کہ) گویا آپ ہمیں پہچانتے ہی نہ تھے اور نہ ہم آپ کو پہچان پاتے تھے۔( فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۳ / ۱۱۴، تحت الحدیث: ۲۸۲۱)
(2)…جب نماز کا وقت ہو جاتا تو حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم پر کپکپاہٹ طاری ہو جاتی اور چہرے کارنگ بدل جاتا۔ایک دن کسی نے پوچھا:اے امیر المؤمنین!آپ کو کیا ہوا؟فرمایا’’اس امانت کی ادائیگی کا وقت آگیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ،زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے معذرت کر لی اور اسے اُٹھانے سے ڈر گئے ۔
(3)…حضرت علی بن حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے بارے میں مروی ہے کہ جب آپ وضو کرتے تو آپ کا رنگ زرد ہو جاتا،جب گھر والے پوچھتے کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے تو آپ فرماتے ’’کیاتمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں ۔
(4)…حضرت حاتم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ان کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا’’جب نما زکا وقت ہو جاتاہے تو میں مکمل وضو کرتا ہوں ، پھر ا س جگہ آ کر بیٹھ جاتا ہوں جہاں نماز پڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے ، یہاں تک کہ میرے اَعضا پُرسکون ہو جاتے ہیں ،پھر میں نماز کے لئے کھڑ اہوتا ہوں ،کعبہ شریف کو آنکھوں کے سامنے ،پل صراط کو قدموں کے نیچے ،جنت کو دائیں اور جہنم کو بائیں طرف اور موت کے فرشتے کو اپنے پیچھے خیال کرتا ہوں اور ا س نماز کو اپنی آخری نماز سمجھتا ہوں ،پھر امید اور خوف کے درمیان جذبات کے ساتھ کھڑ اہوتا ہوں ، حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کرتا ہوں ،قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہوں ،رکوع عاجزی کے ساتھ اور سجدہ ڈرتے ہوئے کرتا ہوں ، بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھتا ہوں ،دائیں پاؤں کو انگوٹھے پر کھڑ اکرتا ہوں ، اس کے بعد اخلاص سے کام لیتا ہوں ، پھر مجھے معلوم نہیں کہ میری نماز قبول ہوتی ہے یا نہیں ۔(احیاء علوم الدین، کتاب اسرار الصلاۃ ومہماتہا، الباب الاول، فضیلۃ الخشوع، ۱ / ۲۰۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طریقے سے نما زادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری نماز کو ہمارے حق میں برائیوں اور بے حیائیوں سے بچنے کا ذریعہ بنائے ،آمین۔
تلاوت ِقرآن اورنمازکی پابندی کے فوائد وبرکات :
آیت میں تلاوت ونماز دو عبادتوں کا ذکر ہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تلاوت ِقرآن اورنمازکی پابندی ایسی عبادتیں ہیں جن کے فوائد وبرکات شمارنہیں کیے جاسکتے اورجب بندہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کاپاکیزہ کلام پڑھتاہے تواس پر اَنوار وتَجَلِّیّات کی بارشیں ہوتی ہیں اوربندہ خود اپنے دل میں ایک عجیب لذت محسوس کرتاہے ۔ تلاوتِ قرآن پاک کی کئی حکمتیں ہیں ، اس میں لوگوں کیلئے نصیحتیں بھی ہیں اوراحکام بھی ،اخلاقیات کی تعلیم بھی ہے اور آدابِ زندگی بھی۔ یہ اوَّلین و آخرین کے علوم کا جامع ہے ، اس کے اَسرار ختم نہیں ہوسکتے اور اس کے عجائبات بے شمار ہیں اور یہ چیزیں دل کی پاکیزگی پر مَوقوف ہیں ۔
{وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ: اور بیشک اللہ کا ذکر سب سے بڑاہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کاذکر سب سے عظیم شے ہے نیز یادِ الٰہی سب سے افضل نیک عمل ہے بلکہ تمام عبادتوں کی اصل ذکر ِالٰہی ہی ہے مثلاً نماز اصل میں یادِ الٰہی کیلئے ہے ،یہی حال بقیہ تمام عبادات کا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اس آیت کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو یاد کرنا بہت بڑا ہے ،نیز اس کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بے حیائی اور بری باتوں سے روکنے اور منع کرنے میں سب سے بڑھ کر ہے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۴۵۳، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۸۹۴، ملتقطاً)
حضرت اُمِّ درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کاذکرسب سے بڑاہے ۔اگرتونمازپڑھے تویہ بھی اللہ تعالیٰ کاذکرہے اگرتوروزہ رکھے تویہ بھی اللہ تعالیٰ کاذکرہے ،ہراچھاعمل جوتوکرتاہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے، اور ہر بری چیز سے تمہارا بچنا بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور ان میں سب سے افضل اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا ہے۔( شعب الایمان،العاشر من شعب الایمان۔۔۔الخ،فصل فی ذکر اخبار وردت فی ذکر اللّٰہ عزوجل،۱ / ۴۵۲،الحدیث:۶۸۶)
اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل:
آیت کی مناسبت سے یہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل پر مشتمل2اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت ابودرداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیامیں تم کویہ خبرنہ دوں کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک تمہاراکون ساعمل سب سے اچھا،سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والاہے اورجوتمہارے سونے اورچاندی کو صدقہ کرنے سے زیادہ اچھاہے اوراس سے بھی اچھا ہے کہ تمہاراتمہارے دشمنوں سے مقابلہ ہو،تم انہیں قتل کرو اوروہ تمہیں شہید ماریں ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون ساعمل ہے ؟ارشاد فرمایا’’وہ عمل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ہے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۶-باب منہ، ۵ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۳۸۸)
(2)… حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا گیا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سے بندے کادرجہ سب سے بلند ہوگا؟ارشاد فرمایا’’جو اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکرکرنے والے ہیں ۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان کا درجہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہادکرنے والوں سے بھی زیادہ بلندہوگا؟ ارشاد فرمایا: ’’اگر وہ اپنی تلوارسے کفار اور مشرکین کو قتل کر دے حتّٰی کہ اس کی تلوارٹوٹ جائے اورخون سے رنگین ہوجائے پھر بھی اللہ تعالیٰ کابکثرت ذکرکرنے والے کادرجہ اس سے افضل ہوگا۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۵-باب منہ، ۵ / ۲۴۵، الحدیث: ۳۳۸۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ: اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔} یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ذکر وغیرہ نیک اعمال کو جانتا ہے، اس سے کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں ہے تو وہ تمہیں ان اعمال پر بہترین جزا دے گا۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۷۶)
ظاہر و باطن تمام احوال میں نیک اعمال کرنے کی ترغیب:
علمِ الٰہی کے متعلق مذکورہ بالاقسم کی آیات عموماً اس مفہوم کیلئے ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا علم اتنا وسیع ہے کہ وہ ہر بندے کے ہر ظاہری باطنی عمل کو جانتا ہے ،لہٰذاہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے بچے اور اپنے ظاہری باطنی تمام اَحوال میں نیک اور اچھے اعمال کرنے میں مصروف رہے۔ایک بزرگ فرماتے ہیں ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ تمام مقامات اور احوال میں تمہارے عملوں کو جانتا ہے تو جسے اس بات کا یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کا عمل جانتا ہے وہ گناہوں اور برے اعمال سے بچے اور تنہائی میں بھی طاعات ، عبادات اور بطورِ خاص نماز کی طرف متوجہ رہے۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۷۶) اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.