Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Araf Ayat 163 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(39) | Tarteeb e Tilawat:(7) | Mushtamil e Para:(08-09) | Total Aayaat:(206) |
Total Ruku:(24) | Total Words:(3707) | Total Letters:(14207) |
{وَ سْــٴَـلْهُمْ:اور ان سے پوچھو۔} شانِ نزول:سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کو ان کے کفر پر سرزنش کرتے اور ان سے فرمایا کرتے کہ تم لوگ اپنے باپ دادا کے نقشِ قدم پر ہو کہ انہوں نے ہمیشہ پچھلے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کی ۔ (اور تم میری مخالفت کر رہے ہو۔) اس پر یہودی بولے ’’ہمارے باپ دادا اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے فرمانبردار اور اپنے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اطاعت گزار تھے، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ واقعی ان کے باپ دادا اپنے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کرتے رہے ہیں مگر ان کا خیال تھا کہ ان واقعات کی کسی کو خبر نہیں ، اس لئے اپنے باپ دادوں کی معصومیت کے ڈھنڈورے پیٹتے تھے ۔تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی جس میں ان کے پول کھول دئیے گئے اور وہ لوگ حیران رہ گئے۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۷۱۹)
اس آیت میں خطاب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے کہ آپ اپنے قریب رہنے والے یہودیوں سے سرزنش کے طور پر اس بستی والوں کا حال دریافت فرمائیں۔اس سوال سے مقصود کفار پر یہ ظاہر کرنا تھاکہ سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات کا انکار کرنا یہ اُن کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ کفر و معصیت تو ان کا پرانا دستور ہے کہ ان کے آباؤ اَجداد بھی کفر پر قائم رہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۱۵۰)
{عَنِ الْقَرْیَةِ: بستی کا حال۔} اس بستی کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کون سی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ وہ مصر و مدینہ کے درمیان ایک قریہ ہے۔ ایک قول ہے کہ مدین وطور کے درمیان ایک بستی ہے۔ امام زہری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایاکہ وہ قریہ، طبریۂ شام ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے ایک روایت یہ ہے کہ وہ بستی مَدین ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بستی اِیلہ ہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۱۵۱، بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۳ / ۶۷، ملتقطاً)
{اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ:جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھنے لگے ۔} اس آیت اور اس سے بعد والی 3 آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اُس بستی میں رہنے والے بنی اسرائیل کواللہ تعالیٰ نے ہفتے کا دن عبادت کے لیے خاص کرنے اور اس دن تمام دنیاوی مشاغل ترک کرنے کا حکم دیا نیز ان پر ہفتے کے دن شکار حرام فرما دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کا ارادہ فرمایا تو ہوا یوں کہ ہفتے کے دن دریا میں خوب مچھلیا ں آتیں اوریہ لوگ پانی کی سطح پر انہیں دیکھتے تھے، جب اتوار کا دن آتا تو مچھلیا ں نہ آتیں۔ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ تمہیں مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا گیا ہے لہٰذا تم ایسا کرو کہ دریا کے کنارے بڑے بڑے حوض بنالو اور ہفتے کے دن دریا سے ان حوضوں کی طرف نالیاں نکال لو، یوں ہفتے کو مچھلیاں حوض میں آ جائیں گی اور تم اتوار کے دن انہیں پکڑ لینا، چنانچہ ان کے ایک گروہ نے یہ کیا کہ جمعہ کو دریا کے کنارے کنارے بہت سے گڑھے کھودے اور ہفتے کی صبح کو دریا سے ان گڑھوں تک نالیاں بنائیں جن کے ذریعے پانی کے ساتھ آکر مچھلیاں گڑھوں میں قید ہو گئیں اور اتوار کے دن انہیں نکال لیا اور یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے دی کہ ہم نے ہفتے کے دن تو مچھلی پانی سے نہیں نکالی ۔ ایک عرصے تک یہ لوگ اس فعل میں مبتلا رہے ۔ ان کے اس عمل کی وجہ سے اس بستی میں بسنے والے افراد تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔
(1)…ان میں ایک تہائی ایسے لوگ تھے جوہفتے کے دن مچھلی کا شکار کرنے سے باز رہے اور شکار کرنے والوں کو منع کرتے تھے۔
(2)… ایک تہائی ایسے افراد تھے جو خودخاموش رہتے اوردوسروں کو منع نہ کرتے تھے جبکہ منع کرنے والوں سے کہتے تھے کہ ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ ہلاک کرنے والا یاانہیں سخت عذاب دینے والا ہے ۔
(3)… اورایک گروہ وہ خطاکار لوگ تھے جنہوں نے حکمِ الٰہی کی مخالفت کی اور ہفتے کے دن شکار کیا، اسے کھایا اور بیچا۔
جب مچھلی کا شکار کرنے والے لوگ اس معصیت سے باز نہ آئے تو منع کرنے والے گروہ نے ان سے کہا کہ’’ ہم تمہارے ساتھ میل برتاؤ نہ رکھیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے گاؤں کو تقسیم کرکے درمیان میں ایک دیوار کھینچ دی۔ منع کرنے والوں کا ایک دروازہ الگ تھا جس سے آتے جاتے تھے اور خطا کاروں کا دروازہ جدا تھا۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان خطا کاروں پر لعنت کی تو ایک روز منع کرنے والوں نے دیکھا کہ خطاکاروں میں سے کوئی باہر نہیں نکلا، تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید آج شراب کے نشہ میں مدہوش ہوگئے ہوں گے، چنانچہ اُنہیں دیکھنے کے لئے دیوار پر چڑھے تو دیکھا کہ وہ بندروں کی صورتوں میں مسخ ہوگئے تھے۔ اب یہ لوگ دروازہ کھول کراندر داخل ہوئے تو وہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے اور ان کے پاس آکر اُن کے کپڑے سونگھتے تھے اور یہ لوگ ان بندر ہوجانے والوں کو نہیں پہچانتے تھے۔ اِن لوگوں نے بندر ہوجانے والوں سے کہا:’’ کیا ہم لوگوں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا؟ اُنہوں نے سرکے اشارے سے کہا: ہاں۔ اس کے تین دن بعد وہ سب ہلاک ہوگئے اور منع کرنے والے سلامت رہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے امی ہونے اور پچھلی کتابں پڑھی ہوئی نہ ہونے کے باوجود بھی اِن واقعات کی خبر دینا ایک معجزہ ہے کہ آپ نے یہودیوں کے سامنے ان کے آباء واَجداد کے اعمال اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی وجہ سے ان کا بندر و خنزیر کی شکلوں میں تبدیل ہو جانا سب بیان فرما دیا۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳ و۱۶۶، ۲ / ۱۵۱-۱۵۲)
شرعی احکام باطل کرنے کے لئے حیلہ کرنے والوں کو نصیحت:
اس واقعے میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے کہ جو شرعی احکام کو باطل کرنے اورا نہیں اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنے کیلئے طرح طرح کے غیر شرعی حیلوں کا سہارا لیتے ہیں ، انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں ا س کی پاداش میں ان کی شکلیں بھی نہ بگاڑ دی جائیں۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جیسا یہودیوں نے کیا تم ا س طرح نہ کرنا کہ تم اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو طرح طرح کے حیلے کر کے حلال سمجھنے لگو ۔ (در منثور، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۳ / ۵۹۲)
یاد رہے کہ حکمِ شرعی کو باطل کرنے کیلئے حیلہ کرنا حرام ہے جیسا کہ یہاں مذکور ہوا البتہ حکمِ شرعی کو کسی دوسرے شرعی طریقے سے حاصل کرنے کیلئے حیلہ کرنا جائز ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اس طرح کا عمل سورۂ ص آیت44میں مذکور ہے۔ عوامُ الناس کو چاہئے کہ پہلے حیلے سے متعلق شرعی رہنمائی حاصل کریں اس کے بعد حیلہ کریں تاکہ معلومات میں کمی کی وجہ سے گناہ میں پڑنے کا اندیشہ باقی نہ رہے۔
نوٹ: اس واقعے کی بعض تفصیلات سورۂ بقرہ آیت65 میں گزر چکی ہیں۔
{وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ:اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا۔} اس آیت میں تیسرے گروہ کا ذکر ہے کہ جنہوں نے خاموشی اختیار کی تھی۔ اس سے معلو م ہوا کہ یہ لوگ مچھلی کے شکار پر بالکل راضی نہ تھے بلکہ ان سے مُتَنَفِّر تھے جبکہ انہیں سمجھاتے اس لئے نہیں تھے کہ ان کے ماننے کی امید نہ تھی۔ اس سے بظاہر یہ سمجھ آتا ہے کہ یہ لوگ بھی نجات پا گئے تھے کیونکہ جب کسی کے ماننے کی امید نہ ہو تو امر بالمعروف کرنا فرض نہیں رہتا ، ہاں افضل ضرور ہوتا ہے نیز امر بالمعروف فرضِ کفایہ ہے لہٰذا جب ایک گروہ یہ کرہی رہا تھا تو ان پر بِعَیْنِہٖ فرض نہ رہا۔
{كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِىٕیْنَ: دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔} حدیث شریف میں ہے،حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ایک شخص نے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا بندر اور خنزیر مَسخ شدہ لوگ ہیں ؟ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو ہلاک کر کے یا کسی قوم کو عذاب دے کر ا س کی نسل نہیں چلائی اور بندر اور خنزیر تو ان سے پہلے بھی ہوتے تھے۔ (مسلم، کتاب القدر، باب بیان انّ الآجال والارزاق وغیرہا۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۲، الحدیث: ۳۳ (۲۶۶۳)) لہٰذا موجودہ بندر اس قوم کی اولاد میں سے نہیں کیونکہ وہ تو فنا کر دی گئی۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.