Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Araf Ayat 187 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(39) | Tarteeb e Tilawat:(7) | Mushtamil e Para:(08-09) | Total Aayaat:(206) |
Total Ruku:(24) | Total Words:(3707) | Total Letters:(14207) |
{یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ:آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں۔} شانِ نزول: حضرتِ عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ یہودیوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ اگر آپ نبی ہیں تو ہمیں بتائیے کہ قیامت کب قائم ہوگی کیونکہ ہمیں اس کا وقت معلوم ہے۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۷، ۲ / ۱۶۵) اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
{قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ:تم فرماؤ: اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے۔} اس آیت میں بتادیا گیا کہ قیامت کے مُعَیَّن وقت کی خبر دینا رسول کی کوئی ذمہ داری نہیں کیونکہ یہ علمِ شریعت نہیں جس کی اشاعت کی جائے بلکہ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کے اَسرار میں سے ہے جس کا چھپانا ضروری ہے ،لہٰذا اگر اس سربستہ راز کو ہر طرح سے ظاہر کر دیا جائے تو پھر قیامت کااچانک آناباقی نہ رہے گا حالانکہ اسی آیت میں تصریح ہے کہ ’’لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً‘‘ تم پر وہ اچانک ہی آجائے گی۔ عوام سے قیامت کا علم مخفی رکھنے کی وجہ سے متعلق علماء فرماتے ہیں ’’ بندوں سے قیامت کا علم اور اس کے وقوع کا وقت مخفی رکھنے کا سبب یہ ہے کہ لوگ قیامت سے خوف زدہ اور ڈرتے رہیں کیونکہ جب انہیں معلوم نہیں ہو گا کہ قیامت کس وقت آئے گی تو وہ ا س سے بہت زیادہ ڈریں گے اور ہر وقت گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کوشاں رہیں گے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ گناہوں میں مشغول ہوں اور قیامت آجائے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۷، ۲ / ۱۶۶)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قیامت کا علم عطا کیا گیا ہے:
سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بڑی تفصیل کے ساتھ قیامت سے پہلے اور اس کے قریب ترین اوقات کے بارے میں تفصیلات بیان فرمائی ہیں جو اس بات کی علامت ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قیامت کا علم تھا۔ ان میں سے 8اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی حتّٰی کہ زمانہ جلد جلد گزرنے لگے گا۔ سال ایک ماہ کی طرح گزرے گا۔مہینہ ہفتہ کی طرح گزرے گا۔ ہفتہ ایک دن کی طرح، ایک دن ایک گھنٹے کی طرح اور ایک گھنٹہ آگ کی چنگاری کی طرح گزر جائے گا۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی تقارب الزمن وقصر الامل، ۴ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۳۹)
(2)…حضرت سلامہ بنت حر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ اہلِ مسجد امامت کرنے کیلئے ایک دوسرے سے کہیں گے اور انہیں نماز پڑھنے کے لئے کوئی امام نہ ملے گا۔( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی کراہیۃ التدافع عن الامامۃ، ۱ / ۲۳۹، الحدیث: ۵۸۱)
(3)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھایا جائے گا اور جہل کا ظہور ہو گا، زنا عام ہو گا اور شراب پی جائے گی، مرد کم ہو جائیں گے اور عورتیں زیادہ ہوں گی حتّٰی کہ پچاس عورتوں کا کفیل ایک مرد ہو گا۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب یقلّ الرجال ویکثر النسائ، ۳ / ۴۷۲، الحدیث: ۵۲۳۱)
(4)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ،نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب میری امت پندرہ کاموں کو کرے گی تو اس پر مَصائب کا آنا حلال ہو جائے گا۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ ! وہ کیا کام ہیں ؟ ارشاد فرمایا:’’ جب مالِ غنیمت کو ذاتی دولت بنا لیا جائے گا، امانت کو مالِ غنیمت بنالیا جائے گا، زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھ لیا جائے گا، جب لوگ اپنی بیوی کی اطاعت کریں گے اور اپنی ماں کی نافرمانی کریں گے، جب دوست کے ساتھ نیکی کریں گے اور باپ کے ساتھ برائی کریں گے، جب مسجدوں میں آوازیں بلند کی جائیں گی، ذلیل ترین شخص کو قوم کا سردار بنا دیا جائے گا، جب کسی شخص کے شر کے ڈر سے اس کی عزت کی جائے گی، شراب پی جائے گی، ریشم پہنا جائے گا، گانے والیاں اور ساز رکھے جائیں گے اور اس امت کے آخری لوگ پہلوں کو برا کہیں گے۔ اس وقت تم سرخ آندھیوں ، زمین کے دھنسنے اور مَسخ کا انتظار کرنا۔ (جامع الاصول، حرف القاف، الکتاب التاسع، الباب الاول، الفصل الحادی عشر، ۱۰ / ۳۸۴، الحدیث: ۷۹۲۵)
(5) …حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت ہر گز اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو،پھر آپ نے دھویں ،دجّال، دابَّۃُ الارض، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے، حضرت عیسیٰ بن مریم کے نزول، یاجوج ماجوج کا اور تین مرتبہ زمین دھنسنے کا ذکر فرمایا، ایک مرتبہ مشرق میں ،ایک مرتبہ مغرب میں ، ایک مرتبہ جزیرۂ عرب میں اور سب کے آخر میں ایک آگ ظاہر ہو گی جو لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی الآیات التی تکون قبل الساعۃ، ص۱۵۵۱، الحدیث: ۳۹ (۲۹۰۱))
(6)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے منقول ایک طویل روایت کے آخر میں ہے کہ قیامت یومِ عاشوراء یعنی محرم کے مہینہ کی دس تاریخ کو ہو گی۔ (فضائل الاوقات للبیہقی، باب تخصیص یوم عاشوراء بالذکر، ص۱۱۹، الحدیث: ۲۸۲)
(7)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے بہتر دن جس میں سورج طلوع ہو تا ہے وہ جمعہ کا ہے ،اسی دن حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا کئے گئے، اسی دن جنت میں داخل کئے گئے اورا سی دن جنت سے باہر لائے گئے اور قیامت بھی جمعہ کے دن قائم ہو گی۔ (مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵، الحدیث: ۱۸ (۸۵۴))
(8)…حضرت عبد اللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی آخری ساعت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پید اکیا اور اسی ساعت میں قیامت قائم ہو گی۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی، باب بدء الخلق، ۲ / ۲۵۰، رقم: ۸۱۱)
حضور سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قیامت کی اس قدر تفصیلی علامات بیان فرمائی ہیں کہ دیگر نشانیوں کے ساتھ ساتھ قیامت کا مہینہ، دن ،تاریخ اور وہ گھڑی بھی بتا دی کہ جس میں قیامت واقع ہو گی البتہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ نہیں بتایا کہ کس سن میں قیامت واقع ہو گی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرسن بھی بتا دیتے تو ہمیں معلوم ہوجاتا کہ قیامت آنے میں اب کتنے سال، کتنے دن اور کتنی گھڑیاں باقی رہ گئی ہیں یوں قیامت کے اچانک آنے کا جو ذکر قرآنِ پاک میں ہے وہ ثابت نہ ہوتا لہٰذاسال نہ بتانا قرآنِ پاک کے صِدق کو قائم رکھنے کیلئے اورا س کے علاوہ بہت کچھ بتا دینا اپنا علم ظاہر کرنے کیلئے ہے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.