اے آدم کی اولاد اگر تمہارے پاس تم میں کے رسول آئیں میری آیتیں پڑھتے تو جو پرہیزگاری کرے اور سنورے تو اس پر نہ کچھ خوف اور نہ کچھ غم
تفسیر: صراط الجنان
{ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ
رُسُلٌ مِّنْكُمْ:اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول تشریف لائیں۔} یہاں اسی سابقہ تَناظُر میں اولادِ آدم سے خطاب ہے کہ اے اولادِ آدم! تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول تشریف
لائیں گے جو تمہیں اللہعَزَّوَجَلَّ کی کتاب پڑھ کر سنائیں گے اُسے سن کرجو پرہیزگاری اختیار کرے گا اور ممنوعات
سے بچتے ہوئے عبادت و اطاعت کا راستہ اختیار کرے گا تو قیامت کے دن اس پر اللہعَزَّوَجَلَّ کے عذا ب کا نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ دنیا میں کچھ چھوڑ دینے کی
وجہ سے غمگین ہوگا بلکہ قیامت کے دن حسب ِ مرتبہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم سے بہرہ وَر ہوں گے ۔ چنانچہ ا س دن کتنے ہی لوگ نور
کے منبروں پر ہوں گے، جیسا کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میرے جلال کی
وجہ سے آپس میں محبت کرنے والوں کیلئے (قیامت کے دن) نور کے منبر ہوں گے جن پر انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہداء بھی رشک کریں گے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الحب فی اللہ، ۴ / ۱۷۴، الحدیث: ۲۳۹۷)
یہ سورت مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان
پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)
اعراف کا معنی ہے بلند
جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے
جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے
قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے
لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل القرآن،
من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک
سورت اعراف بھی ہے۔
یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ
کہ اس میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات
اور انہیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے لوگوں کو
ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان
اور نیک اعمال کی ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد
جیسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت،
مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان
کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی
پیروی ضروری ہے۔
(2) …قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔
(3) …دوبارہ حضرت آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ابلیس کا واقعہ بیان کیا
گیا، اس میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق،
فرشتوں کا انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود
ہونا، حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ اس
کی دشمنی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جنت سے
زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔
(4) … کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
(5) …قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور
اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو
کابیان ہے۔
(6) …اللہ تعالیٰ نے
اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔
(7) …اس سورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے: (1) حضرت نوح
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی
قوم کاواقعہ۔ (2)حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی
قوم کا واقعہ۔ (3) حضرت صالحعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (4) حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی
قوم کا واقعہ۔ (5) حضرت شعیب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کی قوم کا واقعہ۔ (6) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور فرعون
کا واقعہ۔ (7) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور بلعم
بن باعور کا واقعہ۔
(8) …اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ
اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔
سورۂ اعراف کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’اَنعام‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اَنعام میں حضرت آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، سابقہ امتوں کی
ہلاکت اور انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکر
اجمالی طور پر کیا گیا تھاجبکہ سورۂ اعراف میں ان تینوں امور کو تفصیل کے ساتھ
بیان کیاگیا ہے۔ (تناسق الدرر، سورۃ
الاعراف، ۸۷)