Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 10 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ:ان کے دلوں میں بیماری ہے۔}اس آیت میں قلبی مرض سے مراد منافقوں کی منافقت اور حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے بغض کی بیماری ہے ۔ معلوم ہوا کہ بدعقیدگی روحانی زندگی کے لیے تباہ کن ہے نیز حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان سے جلنے والا مریض القلب یعنی دل کا بیمار ہے۔
جس طرح جسمانی امراض ہوتے ہیں اسی طرح کچھ باطنی امراض بھی ہوتے ہیں ، جسمانی امراض ظاہری صحت و تندرستی کے لئے سخت نقصان دہ ہوتے ہیں اور باطنی امراض ایمان اور روحانی زندگی کے لئے زہر قاتل ہیں۔ ان باطنی امراض میں سب سے بدتر تو عقیدے کی خرابی کا مرض ہے اور اس کے علاوہ تکبر، حسد، کینہ اور ریاکاری وغیرہ بھی انتہائی برے مرض ہیں۔ہر مسلمان کوچاہئے کہ باطنی امراض سے متعلق معلومات حاصل کر کے ان سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے اوراس کے لئے بطور خاص امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مشہور کتاب احیاء العلوم کی تیسری جلد کامطالعہ بہت مفید ہے۔
{فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا: تو اللہ نے ان کی بیماری میں اور اضافہ کردیا۔} مفسرین نے اس اضافے کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں ،ان میں سے 3صورتیں درج ذیل ہیں :
(1)… ریاست چھن جانے کی وجہ سے منافقوں کو بہت قلبی رنج پہنچا اور وہ دن بہ دن حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ثابت قدمی اور غلبہ دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے لگے توجتنا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا غلبہ ہوتا گیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں میں مقبول ہوتے گئے اتنا ہی اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے رنج و غم میں اضافہ کر دیا ۔
(2)…منافقوں کے دل کفر،بد عقیدگی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عداوت و دشمنی سے بھرے ہوئے تھے ،اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِن چیزوں میں اس طرح اضافہ کر دیا کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی تاکہ کوئی وعظ و نصیحت ان پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
(3)…جیسے جیسے شرعی احکام اور نزول وحی میں اضافہ ہوا اور مسلمانوں کی مدد و نصرت بڑھتی گئی ویسے ویسے ان کاکفر بڑھتا گیا بلکہ ان کا حال تو یہ تھا کہ کلمہ شہادت پڑھنا ان پر بہت دشوار تھا اور اوپر سے عبادات میں اضافہ ہو گیا اورجرموں کی سزائیں بھی نازل ہو گئیں جس کی وجہ سے یہ لوگ بہت بے چین ہو گئے تھے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱ / ۵۵)
{وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ: اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔}
یعنی اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی وجہ سے ان کے لئے جہنم کا دردناک عذاب ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۲۶)
جھوٹ بولنے کی وعید اور نہ بولنے کا ثواب:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنا حرام ہے اور اس پردردناک عذاب کی وعید ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سچائی کو(اپنے اوپر) لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اورگناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ۔۔۔ الخ، باب قبح الکذب۔۔۔ الخ، ص۱۴۰۵، الحدیث: ۱۰۵(۲۶۰۷))
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ باطل ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۰)