Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 108 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{كَمَا سُىٕلَ مُوْسٰى: جیسے موسیٰ سے سوال کیا گیا۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ یہودیوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کیا:جس طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تورات لے کر آئے تھے اسی طرح آپ بھی ہمارے پاس ایک ہی مرتبہ سارا قرآن لے آئیں۔بعض نے یوں کہا کہ ہم آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے نہیں لے آتے۔ان کے سوالات کے جواب میں ان سے فرمایا گیا: کیاتم یہ چاہتے ہو کہ تم اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ویسے ہی سوال کر و جیسے محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کئے گئے تھے۔اے یہودیو!جب میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا درست ہونا دلائل اور معجزات سے ثابت ہو چکا تو پھر ایسے لا یعنی سوال کیوں کر رہے ہو اور اے ایمان والو! بے شک یہودی دھوکے باز اور تم سے حسد کرنے والے ہیں اور ان کی تمنا یہ ہے کہ مسلمان کسی نہ کسی مشکل میں مبتلا ہوں لہٰذا ان کی کوئی ایسی بات قبول نہ کرو جو بظاہر نصیحت لگ رہی ہو اور یاد رکھو کہ جو ایمان کے بدلے کفر اختیار کر کے اپنے دین سے پھر گیا تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱ / ۷۹)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ کفار مکہ نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ سارا قرآن ایک ہی مرتبہ لے آئیں ، کسی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ( اور فرشتے )ہمارے سامنے اعلانیہ آجائیں ،کسی نے کہا کہ کوہِ صفا کو سونے کا بنادیں۔ ان کے سوالات کے جواب میں ان سے فرمایا گیا کہ تم بھی اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اسی طرح فضول سوال کر رہے ہو جس طرح ان سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے ان سے کہا تھا کہ ہمیں اعلانیہ خدا دکھا دو، حالانکہ آیاتِ قرآنیہ کے نزول کے بعد دوسری نشانیوں کا مطالبہ کرنا سیدھے راہ سے بھٹکنا ہے۔(طبری، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱ / ۵۳۰، در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱ / ۲۶۰-۲۶۱، جلالین مع صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱ / ۹۹-۱۰۰، ملتقطاً)
صحیح مقصد کے بغیر سوال کرنا منع ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی صحیح مقصد کے بغیر سوال کرنا ممنوع ہے نیز فضول سوال کرنا بھی ممنوع ہے۔ لہٰذا عوام الناس کو چاہئے کہ اس بات کو پیش نظررکھیں کہ علماء اور مفتیانِ کرام سے وہی سوال کئے جائیں جن کی حاجت ہو، زمین پر بیٹھ کر خواہ مخواہ چاندپر رہائش کے سوال نہ کئے جائیں۔بعض لوگ علماء کو پریشان کرنے یا ان کا امتحان لینے یا ان کی لاعلمی ظاہر کرنے کیلئے سوال کرتے ہیں ،یہ سب ناجائز ہے۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں تمہیں جس کام سے منع کروں اس سے رک جاؤ اور جس کام کا حکم دوں اسے اپنی طاقت کے مطابق کرو، تم سے پہلے لوگوں کو محض ان کے سوالات کی کثرت اوراپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اختلاف کرنے نے ہلاک کیا۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب توقیرہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ص ۱۲۸۲، الحدیث: ۱۳۰ (۱۳۳۷))
من پسند حکم کا مطالبہ کرنایہودیوں کا طریقہ ہے:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسئلہ معلوم کرکے عمل کرنے کی بجائے خواہ مخواہ بال کی کھال اتارتے رہنا اور اپنے من پسند حکم کا مطالبہ کرنا یہودیوں اور مشرکوں کا طریقہ ہے۔ہمارے معاشرے میں بھی لوگوں کی ایک تعداد ایسی ہے جن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ معاملات یا عبادات میں جو صورت انہیں درپیش ہے اس میں فتویٰ ان کی مرضی اور پسند کے عین مطابق ملے اور اگر انہیں کہیں سے کوئی ایک ایسی دلیل مل جاتی ہے جو ان کے مقصد و مفادکو پورا کر رہی ہوتی ہے تو وہ اسی پر اڑ جاتے ہیں اگرچہ اس کے خلاف ہزار دلائل موجود ہوں لیکن وہ چونکہ ان کی مراد کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے انہیں قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے اور ان کے بارے میں طرح طرح کی الٹی سیدھی تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.