Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 142 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ:اب بیوقوف لوگ کہیں گے۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ کو قبلہ بنایا گیا تو اس پر انہوں نے اعتراض کیا کیونکہ یہ تبدیلی انہیں ناگوار تھی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت مکہ کے مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب قبلہ تبدیل ہوا تو انہوں نے آپس میں کہا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اپنے دین کے بارے میں تَرَدُّد کا شکار ہیں اور ابھی تک ان کے دل میں اپنی ولادت گاہ یعنی مکہ مکرمہ کا اشتیاق موجود ہے ،لہٰذاجب انہوں نے تمہارے شہر کی طرف توجہ کر لی ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے دین کی طرف بھی لوٹ آئیں۔تیسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ انہوں نے اسلام کا مذاق اڑاتے ہوئے قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کیا تھا۔ چوتھا قول یہ ہے کہ یہ آیت مشرکین ، منافقین اور یہودی تینوں کے بارے میں ہوسکتی ہے کیونکہ قبلہ کی تبدیلی پر طعن و تشنیع کرنے میں سب شریک تھے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۱ / ۹۶)
اس آیت ِ مبارکہ میں غیب کی خبر بھی ہے کہ پہلے سے فرمادیا گیا کہ بیوقوف و جاہل لوگ قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کریں گے ،چنانچہ ویسا ہی واقع ہوا کہ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔
{اَلسُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ:بیوقوف لوگ ۔}قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کرنے والوں کو بے وقوف اس لیے کہا گیا کہ وہ ایک واضح بات پراعتراض کررہے تھے کیونکہ سابقہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نبی آخر الزماں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے خصائص میں آپ کا لقب’’ ذُوالْقِبْلَتَیْنْ‘‘ یعنی دو قبلوں والا ہونا بھی ذکر فرمایا تھا اور قبلہ کی تبدیلی تو اس بات کی دلیل تھی کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی پہلے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خبر دیتے آئے ہیں تو صداقت کی دلیل کو تسلیم کرنے کی بجائے اسی پر اعتراض کرنا حماقت ہے اس لئے انہیں بے وقوف کہاگیا ،جیسے کوئی دھوپ کے روشن ہونے کو سورج کے طلوع ہونے کی دلیل بنانے کی بجائے ، طلوع نہ ہونے کی دلیل بنائے تو اسے بیوقوف کے سوا اور کیا کہا جائے گا۔
دینی مسائل پر بے جا اعتراضات کرنے والے بیوقوف ہیں :
اس آیت میں بیت المقدس کے بعد خانہ کعبہ کو قبلہ بنائے جانے پر اعتراض کرنے والوں کو بیوقوف کہا گیا،اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دینی مسائل کی حکمتیں نہ سمجھ سکے اور ان پر بے جا اعتراض کرے وہ احمق اور بیوقوف ہے اگرچہ دنیوی کاموں میں وہ کتنا ہی چالاک ہو۔ آج کل بھی ایسے بیوقوفوں کی کمی نہیں ہے چنانچہ موجودہ دور میں بھی مسلمان کہلا کر شراب، سود، پردے، حیا ، اسلامی نظامِ وراثت اور حدود ِ اسلام پر اعتراضات کرنے والے لوگ موجود ہیں اور ایسے افراد قرآن مجید کے حکم کے مطابق بیوقوف ہیں۔
{مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا:اِن مسلمانوں کو اِن کے اُس قبلے سے کس نے پھیر دیا جس پر یہ پہلے تھے؟}قبلہ اس جہت کو کہتے ہیں جس کی طرف انسان منہ کرتا ہے اور چونکہ مسلمانوں کو خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کاحکم دیا گیا ہے اس لئے خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ہے۔
خانہ کعبہ اور بیت المقدس کن زمانوں میں قبلہ بنے:
یاد رہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک کعبہ ہی قبلہ رہا، پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک بیت المقدس قبلہ رہا اور مسلمان بھی مدینہ منورہ میں آنے کے بعد تقریباً سولہ ، سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور اس کے بعد نماز ظہر کی ادائیگی کے دوران مسجد ِقِبْلَتَین میں قبلہ کی تبدیلی کا واقعہ ہوا۔ نیزیہ بھی یاد رہے کہ حج ہمیشہ کعبہ ہی کا ہوا ہے، بیت المقدس کا حج کبھی نہیں ہوا ۔
{قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ: تم فرمادو: مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے۔} قبلہ پر اعتراض کرنے والے تمام لوگوں کو ایک ہی جواب دیا کہ انہیں کہہ دو :مشرق و مغرب سب اللہ تعالیٰ کاہے، اسے اختیار ہے جسے چاہے قبلہ بنائے، کسی کو اعتراض کا کیا حق ہے؟ بندے کا کام فرمانبرداری کرناہے ۔ گویا فرمایا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دو : ہم مشرق و مغرب کے پجاری نہیں کہ سمتوں پر اڑے رہیں بلکہ ہم تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرنے والے ہیں ، وہ جدھر منہ کرنے کا ہمیں حکم فرمائے ہم ادھر ہی منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اور پڑھتے رہیں گے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.