Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 161 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ: اور جو حالتِ کفر میں مرے۔} سب سے بدبخت آدمی کفر پر مرنے والا ہے اگرچہ اس کی ساری زندگی اعلیٰ درجے کی عبادت و ریاضت اور تبلیغ و خدمت ِ دین میں گزری ہو ۔کفر پر مرنے والوں پراللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔
برے خاتمے کا خوف:
اس آیت سے معلوم ہوا مرتے وقت ایمان کی دولت سے محروم رہ جانا سب سے بڑی بدبختی ہے اور اس وقت ایمان کا سلامت رہ جانا بہت بڑی سعادت ہے ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اگرچہ کتنا ہی نیک و پارسا،عبادت گزار اور پرہیزگار کیوں نہ ہو اپنے برے خاتمے سے خوفزدہ رہے۔ ہمارے بزرگانِ دین کا بھی یہی طرز عمل رہا ہے کہ وہ سب سے زیادہ برے خاتمے کے بارے میں خوفزدہ رہتے تھے۔چنانچہ جب حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا وقت وصال آیا تو آپ نے رونا شروع کر دیا، ان سے کہا گیا: آپ امید رکھئے ،اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر گناہوں سے درگزر فرمانے والا ہے۔آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: (تم کیا سمجھتے ہو کہ) کیا میں اپنے گناہوں کی وجہ سے آنسو بہا رہا ہوں ؟ اگر میں جانتا کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر قائم رہتے ہوئے مروں گا تو پھر مجھ پر پہاڑوں کے برابر بھی گناہ ڈال دئیے جاتے تو مجھے کوئی پروا نہ ہوتی۔ (یعنی ایمان پر موت ہوجائے تو مجھے کچھ ڈر نہیں۔)(احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان الدواء الذی بہ یستجلب۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۱۱)
حضرت امام احمد بن حنبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے انتقال کے وقت جب آپ کے صاحب زادے نے طبیعت دریافت کی تو فرمایا،’’ابھی جواب کا وقت نہیں ہے ، بس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ میرا خاتمہ ایمان پر کر دے کیونکہ ابلیس لعین اپنے سر پر خاک ڈالتے ہوئے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ ’’تیرا دنیا سے ایمان سلامت لے جانا میرے لئے باعث ِ ملال ہے۔ اور میں اس سے کہہ رہا ہوں کہ ابھی نہیں ، جب تک ایک بھی سانس باقی ہے میں خطرے میں ہوں ، میں (تجھ سے ) پرامن نہیں ہوسکتا ۔(تذکرۃ الاولیاء، ذکر امام احمد حنبل، ص۱۹۹، الجزء الاول)
حضور غوث اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اولیاء کے سردار ہیں لیکن خوف ِ خدا کا جو عالم تھااس کا اندازہ آپ کی طرف منسوب ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عید کے دن فرمایا :
خلق گوید کہ فردای روز عید است
خوشی در روحِ ہر مومن پدید است
دراں روزے کہ باایماں بمیرم
مرا در ملک خود آں روز عید است
یعنی لوگ کہہ رہے ہیں کہ کل عید ہے!کل عید ہے! اور سب خوش ہیں لیکن میں تو جس دن ا س دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے کر گیا میرے لئے تو وہی دن عید ہو گا۔
لعنت کرنے سے متعلق شرعی مسائل:
یہاں آیت میں کافروں پرلعنت کی گئی ہے۔ یہ مسئلہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس شخص کے کفر پر مرنے کا یقین نہ ہو اس پر لعنت نہ کی جائے نیز فاسق کا نام لے کر لعنت جائز نہیں جیسے کہا جائے ’’فلاں شخص پر لعنت ہو‘‘البتہ وصف کے ساتھ لعنت کر سکتے ہیں جیسے احادیث میں جھوٹوں ، سود خوروں ، چوروں اور شرابیوں وغیرہ پر لعنت کی گئی ہے ۔ نیزوصف کے اعتبار سے لعنت قرآن پاک میں بھی کی گئی ہے جیسے جھوٹوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ
’’لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ‘‘(اٰل عمران:۶۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔
{وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ: اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔} مومن تو کافروں پر لعنت کریں گے ہی ،بروزِ قیامت کافر بھی ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.