Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 168 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا: جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ ۔} مشرکین نے اپنی طرف سے بہت سے جانوروں کو حرام قرار دیا ہوا تھا ،اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی کہ زمین میں پیدا شدہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہیں اور لوگوں کے نفع کیلئے ہی انہیں پیدا کیا ہے لہٰذا صرف ان چیزوں سے بچو جنہیں اللہ تعالیٰ نے خود منع فرما دیا اور جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع نہیں فرمایا وہ سب حلال ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام قرار دینا کیسا ہے؟
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام قرار دینا اس کی رَزّاقِیَّت سے بغاوت ہے مسلم شریف کی حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو مال میں اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہوں وہ ان کے لیے حلال ہے۔ اور اسی حدیث میں ہے کہ’’ میں نے اپنے بندوں کو باطل سے بے تعلق پیدا کیا پھر ان کے پاس شیاطین آئے اور انہوں نےلوگوں کودین سے بہکایا اور جو میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اس کو حرام ٹھہرایا۔(مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب صفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنۃ واہل النار، ص۱۵۳۲، الحدیث: ۶۳(۲۸۶۵))
حلال و طیب رزق سے کیا مراد ہے؟
حلال و طیب سے مراد وہ چیز ہے جو بذات ِ خود بھی حلال ہے جیسے بکرے کا گوشت، سبزی، دال وغیرہ اور ہمیں حاصل بھی جائز ذریعے سے ہو یعنی چوری، رشوت، ڈکیتی وغیرہ کے ذریعے نہ ہو۔
رزق حلال کے فضائل اور حرام رزق کی مذمت:
احادیث مبارکہ میں رزق حلال کی بہت فضیلت اور رزق حرام کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ۔ان میں 3 احادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مُستجَابُ الدَّعْوات کردے یعنی میری ہر دعا قبول ہو۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اے سعد! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،اپنی خوراک پاک کرو، مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۵ / ۳۴، الحدیث: ۶۴۹۵)
(2) …حضرت ابو سعیدخدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے حلال مال کمایاپھر اسے خود کھایا یا اس کمائی سے لباس پہنا اور اپنے علاوہ اللہ تعالیٰ کی دیگر مخلو ق (جیسے اپنے اہل و عیال اور دیگر لوگوں ) کو کھلا یا اور پہنا یا تو اس کا یہ عمل اس کے لئے برکت و پاکیزگی ہے ۔(الاحسان بترتیب ابن حبان، کتاب الرضاع، باب النفقۃ، ذکر کتبۃ اللہ جلّ وعلا الصدقۃ للمنفق۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۱۸، الحدیث: ۴۲۲۲، الجزء السادس)
(3)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، جس نے اس میں حلال طریقے سے مال کمایا اور اسے وہاں خرچ کیا جہاں خرچ کرنے کا حق تھا تو اللہ تعالیٰ اسے(آخرت میں ) ثواب عطا فرمائے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا اور جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ تعالیٰ اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم) میں داخل کردے گا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مال میں خیانت کرنے والے کئی لوگوں کے لئے قیامت کے دن جہنم ہوگی۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا(بنی اسرائیل: ۹۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:جب کبھی بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۹۶، الحدیث: ۵۵۲۷)
ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ حلال روزی کمائے اور حلال روزی سے ہی کھائے اور پہنے اسی طرح دوسروں کو بھی جو مال دے وہ حلال مال میں سے ہی دے ۔ہمارے بزرگان دین رزق کے حلال ہونے میں کس قدر احتیاط کرتے تھے اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے، چنانچہ ایک بار امیرالمؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا غلام آپ کی خدمت میں دودھ لایا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے پی لیا ۔ غلام نے عرض کی، میں پہلے جب بھی کوئی چیز پیش کرتا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا س کے بارے میں دریافت فرماتے تھے لیکن اِس دودھ کے بارے میں کچھ دریافت نہیں فرمایا؟ یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا، یہ دودھ کیسا ہے؟ غلام نے جواب دیا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بیمار پر منتر پھونکا تھا جس کے معاوضے میں آج اس نے یہ دودھ دیا ہے ۔ حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ سن کر اپنے حلق میں اُنگلی ڈالی اور وہ دودھ اُگل د یا ۔ اِس کے بعد نہایت عاجزی سے دربارِ الٰہی میں عرض کیا ،’’ یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، جس پر میں قادر تھا وہ میں نے کر دیا ، اس دودھ کا تھوڑا بہت حصہ جو رگوں میں رہ گیا ہے وہ معاف فرما دے۔(منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، تقوی الاعضاء الخمسۃ، الفصل الخامس، ص۹۷)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.