$header_html
Our new website is now live Visit us at https://alqurankarim.net/

Home Al-Quran Surah Al Baqarah Ayat 194 Translation Tafseer

رکوعاتہا 40
سورۃ ﷅ
اٰیاتہا 286

Tarteeb e Nuzool:(87) Tarteeb e Tilawat:(2) Mushtamil e Para:(1-2-3) Total Aayaat:(286)
Total Ruku:(40) Total Words:(6958) Total Letters:(25902)
194

اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۪-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(194)
ترجمہ: کنزالایمان
ماہِ حرام کے بدلے ماہ ِحرام اور ادب کے بدلے ادب ہے توجو تم پر زیادتی کرے اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اس نے کی اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈر والوں کے ساتھ ہے


تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ: ادب والے مہینے کے بدلے ادب والا مہینہ ہے۔} مسلمانوں کو چونکہ حرمت والے مہینوں میں لڑنا نہایت بھاری لگ رہا تھا اس لئے ان کی مزید تسلی کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ حرمت والے مہینے میں جنگ کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یہ اجازت کفار کی طرف سے حرمت پامال کرنے کی وجہ سے دی گئی ہے۔ انہوں نے تمہیں عمرہ کرنے اور مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکا لہٰذا اب اگر تم ان سے لڑتے ہو اور ان کا خون بہاتے ہو تویہ حرم اور ماہ حرام کی بے حرمتی نہیں ہوگی کیونکہ یہ اللہ  تعالیٰ کی طرف سے اجازت کے ساتھ ہوگا اوریہ سب لڑائی اصل میں حرمتوں کا بدلہ ہوگا یعنی کافروں کا حرمت والے مہینے میں فتنہ و فساد کرنا حرمتوں کو پامال کرنا ہے اور تمہارا جواب دینا اصل میں حرمتوں کا بدلہ لینا ہے نہ کہ حرمتوں کو پامال کرنا۔ یوں سمجھ لیں کہ ڈاکو کی گولی کے جواب میں اگر پولیس گولی چلائے تو پولیس کو مجرم نہیں کہیں گے بلکہ ان کے فعل کو حفاظت و ذمہ داری کہا جائے گا۔ قاتل کے قتل کو زیادتی نہیں کہیں گے بلکہ اسے قصاص کہا جائے گا۔

{فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ: تو جو تم پر زیادتی کرے۔} کافر مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھاتے رہے، شروع اسلام میں دن رات، صبح و شام ہر وقت مسلمانوں کو ستانے میں لگے رہے، کسی کو شہید کیا، کسی کو تپتی ریت پر گھسیٹا، کسی کوانگاروں پر لٹایا، کسی کو کوڑے مارے، کسی کا راہ چلتے مذاق اڑایا، مسلمانوں کو ان کے گھروں سے ہجرت پر مجبور کردیا، ان کے کاروبار ختم کردئیے، انہیں ان کے رشتے داروں سے جدا کردیا۔ ان تمام واقعات کی تلخیاں مسلمانوں کے دلوں میں موجود تھیں ، اب جبکہ مسلمانوں کو بدلہ لینے کا موقع مل رہا تھا تو اس بات کا امکان تھا کہ مسلمان بھی بدلہ لینے میں اپنے جذبہ انتقام کو بھر پور طریقے سے پورا کرتے اور بدلہ لینے میں حد سے بڑھ جاتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے ہی مسلمانوں کو سمجھادیا کہ تم پر جنہوں نے زیادتیاں کی ہیں تمہیں ان سے بدلہ لینے کا اختیار تو دیا جارہا ہے لیکن تم اتنا ہی بدلہ لے سکتے ہو جتنی انہوں نے تم پر زیادتی کی ، اس سے زائد کی تمہیں ہرگز اجازت نہیں۔ لہٰذا بدلہ لینے میں بھی تقویٰ اور خوفِ خدا کو پیشِ نظر رکھو اور یہ جان لو کہ اللہ  تعالیٰ کا قرب اور مَعِیَّت اسی کو نصیب ہوگی جو ہر حال میں تقویٰ اختیار کرے گا۔

بدلہ لینے سے متعلق دین اسلام کی حسین تعلیم:

             کیا حسین تعلیم ہے اور کیا پاکیزہ تربیت ہے جس وقت جذبات مچل رہے ہوں ، جذبہ انتقام جوش مار رہا ہو، دشمن قبضے میں آنے ہی والا ہو، غلبہ حاصل ہوا ہی چاہتا ہو اس وقت بھی تقویٰ کا، عدل و انصاف کا درس دیا جارہا ہے، زیادتی کرنے سے منع کیا جارہا ہے۔ کیا روئے زمین پر کوئی دوسرا ایسا دین، قانون ہے جو اپنے ماننے والوں کو اس طرح کے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کا درس دیتا ہو؟ ہرگز نہیں۔ یقینا یہ صرف اسلام ہی ہے۔

Reading Option

Ayat

Translation

Tafseer

Fonts Setting

Download Surah

Related Links

$footer_html