اور بعض آدمی وہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کی بات تجھے بھلی لگے اور اپنے دل کی بات پر اللہ کو گواہ لائے اور وہ سب سے بڑا جھگڑالو ہےاور جب پیٹھ پھیرے تو زمین میں فساد ڈالتا پھرے اور کھیتی اور جانیں تباہ کرے اور اللہ فساد سے راضی نہیں
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ:
جس کی گفتگو تجھے اچھی لگتی ہے۔} شانِ نزول:
یہ آیت اَخْنَسْ بن شَرِیْق منافق کے بارے میں نازل ہوئی جو کہ حضورسید المرسلین صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر بہت لجاجت سے میٹھی میٹھی باتیں
کرتا تھا اور اپنے اسلام اور آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی محبت کا دعویٰ کرتا اوراس پر قسمیں کھاتا اور درپردہ
فساد انگیزی میں مصروف رہتا تھا۔ اس نے مسلمانو ں کے مویشیوں کو ہلا ک کیا او ر ان
کی کھیتیوں کو آگ لگائی تھی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۱ / ۱۴۴-۱۴۵)
یہاں مجموعی طور پر جو
خرابیاں بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں :
(1)…ظاہری
طور پر بڑی اچھی باتیں کرنا، (2)…اپنی
غلط باتوں پر اللہ کو گواہ بنانا، (3)…جھگڑالو
ہونا، (4)…
فساد پھیلانا، (5)…لوگوں
کے اموال برباد کرنا، (6)…نصیحت
کی بات سن کر قبول کرنے کی بجائے تکبر کرنا ۔
یہاں
آیت مبارکہ میں اگرچہ ایک خاص منافق کا تذکرہ ہے لیکن یہ آیت بہت سے لوگوں کو
سمجھانے کیلئے کافی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی زبان بڑی
میٹھی ہے، گفتگو بڑی نرمی سے کرتے ہیں ،بڑی عاجزی کا اظہار
کرتے ہیں لیکن در پردہ دین کے مسائل میں یا لوگوں میں یا خاندانوں میں فساد برپا
کرتے ہیں اور ہلاکت و بربادی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا
کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات
سب سے پہلے نازل ہوئیں۔) (خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ، ۱ / ۱۹)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 40 رکوع،286آیتیں
ہیں۔
’’بقرہ‘‘ نام رکھے جانے کی وجہ:
عربی میں گائے کو ’’ بَقَرَۃٌ‘‘کہتے
ہیں اوراس سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73
میں بنی اسرائیل کی ایک گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے
’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے ہیں۔
احادیث میں اس سورت کے بے شمار فضائل
بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 5فضائل درج ذیل ہیں :
(1) …حضرت ابو اُمامہ باہلی رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے
ارشاد فرمایا: ’’قرآن پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت
کرنے والوں کی شفاعت کرے گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘اور’’ سورۂ اٰل عمران‘‘ پڑھا کرو کیونکہ یہ
دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو
اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت
کریں گی،’’سورۂ بقرہ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور نہ
پڑھنے میں (ثواب
سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے
اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین
وقصرہا، باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳، الحدیث: ۲۵۲(۸۰۴))
(2) … حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے
روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے
ارشاد فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس
میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین
وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ۔۔۔ الخ، ص۳۹۳،
۲۱۲(۷۸۰))
(3) …حضرت ابو مسعود رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
سے روایت ہے،سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے
ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا تو وہ
اسے(ناگہانی
مصائب سے) کافی ہوں گی۔(بخاری،
کتاب فضائل القرآن، باب فضل البقرۃ، ۳ / ۴۰۵، الحدیث: ۵۰۰۹)
(4) …حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ ہر چیز کی ایک
بلندی ہے اور قرآن کی بلندی ’’سورہ ٔ بقرہ‘‘ ہے، اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی(تمام )آیتوں کی سردار ہے اور وہ( آیت) آیت الکرسی ہے۔(ترمذی، کتاب فضائل القرآن،
باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۰۲، الحدیث: ۲۸۸۷)
(5) …حضرت سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے دن کے وقت
اپنے گھر میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی تو تین دن تک شیطان اس کے گھر کے قریب
نہیں آئے گا اورجس نے رات کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو تین
راتیں ا س گھر میں شیطان داخل نہ ہو گا۔(شعب
الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر سورۃ
البقرۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۵۳، الحدیث: ۲۳۷۸)
یہ
قرآن پاک کی سب سے بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی
اسرائیل پر کئے گئے انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی
سرائیل کے جرائم جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ناحق شہید کرنا اور عہد
توڑناوغیرہ،گائے ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریم
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے زمانے میں موجود یہودیوں کے باطل
عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو یہودیوں کی
دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ‘‘ میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں:
(1) … قرآن پاک کی صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و
شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
(2) … قرآن پاک سے حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا
بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا
گیا ہے۔
(3) …قرآن پاک میں شک کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی
کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو
بھی بیان کر دیاگیا۔
(4) …حضرت آدمعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام
کی تخلیق کا واقعہ بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا
ہے۔
(5) …خانۂ کعبہ کی تعمیر اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی
دعا کا ذکر کیا گیاہے۔
(6) …اس سورت میں نبی کریم
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی پسند کی وجہ سے قبلہ کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے
اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔
(7) … عبادات اور معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے،
رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا حج کرنے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے،دینی
معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ
کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،یتیموں کے ساتھ معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت،
عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا
اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ کے بارے میں مسلمانوں کو ایک
شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔
(8) …تابوت سکینہ ، طالوت اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔
(9) …مردوں کو زندہ کرنے کے ثبوت پرحضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی وفات کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔
(10) …حضرت ابراہیمعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام
کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ کرو انے کا
واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(11) …اس سورت کے آخر میں اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع
کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو توجہ
دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔
مناسبت
سورۂ فاتحہ کے ساتھ مناسبت:
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی
اپنے سے ماقبل سورت’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ میں
مسلمانوں کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی تھی’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ یعنی اے اللہ!ہم کو سیدھا راستہ چلا۔(فاتحہ:
۵) اور ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں کامل ایمان والوں کے اوصاف ،مشرکین
اور منافقین کی نشانیاں ،یہودیوں اور عیسائیوں کا طرز عمل ، نیز معاشرتی زندگی کے
اصول اور احکام ذکر کر کے مسلمانوں کے لئے’’ صراطِ مستقیم ‘‘کو بیان کیا گیا ہے ۔