Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 220 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ: دنیا و آخرت کے کاموں میں۔} اس حصے کا تعلق پچھلی آیت کے آخری جملے سے ہے اور اس کا معنٰی یہ بنے گا ’’ تا کہ تم دنیا و آخرت کے معاملے میں غور و فکر کرو۔ یعنی جتنا تمہاری دنیوی ضرورت کے لیے کافی ہو وہ لے کر باقی سب مال اپنی آخرت کے نفع کے لیے خیرات کردو ۔ اس سے جداگانہ بھی دنیا و آخرت کے کام سوچ سمجھ کر ہی کرنے چاہئیں۔
{ وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْیَتٰمٰى: اور تم سے یتیموں کا مسئلہ پوچھتے ہیں۔}
جب یہ آیت: اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا (النساء: ۱۰) نازل ہوئی کہ یتیموں کا مال کھانے والا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرنے والا ہے تو لوگوں نے یتیموں کے مال جدا کر دیئے اور ان کا کھانا پینا علیحدہ کردیا اس میں یہ صورتیں بھی پیش آئیں کہ جو کھانا یتیم کے لیے پکایاجاتا اس میں سے کچھ بچ جاتا اور خراب ہوجاتا اور کسی کے کام نہ آتا، اس میں یتیموں کا نقصان ہونے لگا۔ یہ صورتیں دیکھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کی کہ اگر یتیم کے مال کی حفاظت کی نیت سے اس کا کھانا اس کے سرپرست اپنے کھانے کے ساتھ ملالیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یتیموں کے فائدے کے لیے ملانے کی اجازت دی گئی۔(ابو داود، کتاب الوصایا، باب مخالطۃ الیتیم فی الطعام، ۳ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۸۷۱، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۰، ۲ / ۴۰۴)
لیکن ساتھ ہی تنبیہ فرمادی کہ تمہیں یتیموں کے فائدے کیلئے مال ملانے کی اجازت تو دیدی گئی ہے لیکن کون اچھی نیت سے یتیموں کا مال ملاتا ہے اور کس کی نیت میں فساد ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ یہ نہ ہو کہ ظاہراً تو یتیموں کا فائدہ کررہے ہو اور حقیقت میں ان کا مال ہڑپ کرنے کا ارادہ ہو۔آیت مبارکہ کا یہ حصہ’’وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ اصلاح کی نیت والے اور فساد کی نیت والے دونوں کو جانتا ہے،یہ فرمان نہایت جامع ہے اور زندگی کے ہزاروں شعبوں کے لاکھوں معاملات میں رہنمائی کیلئے کافی ہے جہاں ایک ہی چیز میں اچھی اور بری دونوں نیتیں ہوسکتی ہیں وہاں دوسرے لوگ اگرچہ بری نیت کو نہ جانتے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے۔
یتیموں سے متعلق 2 احکام:
(1)…یتیم وہ نابالغ بچہ یا بچی ہے جس کا باپ فوت ہو گیا ہو، اگر اس کے پاس مال ہو اور اپنے کسی ولی کی پرورش میں ہو اس کے احکام اس آیت میں مذکور ہیں کہ ولی خواہ اس یتیم کا مال اپنے مال سے ملا کر اس پر خرچ کرے یا علیحدہ رکھ کر جس میں یتیم کی بہتری ہو وہ کرسکتا ہے لیکن ملانا خراب نیت سے نہیں ہونا چاہیے۔
(2)…اگرچہ اس آیت کا نزول یتیموں کی مالی اصلاح کے بارے میں ہوا مگر اصلاح کے لفظ میں ساری مصلحتیں داخل ہیں۔ یتیموں کے اخلاق، اعمال ،تربیت، تعلیم سب کی اصلاح کرنی چاہیے ۔ یوں سمجھیں کہ یتیم ساری مسلم قوم کیلئے اولاد کی طرح ہیں۔