Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 233 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ:اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔} طلاق کے بیان کے بعد یہ سوال طبعاًسامنے آتا ہے کہ اگر طلاق والی عورت کی گود میں شیر خوار بچہ ہو تو اس کی جدائی کے بعد اس کی پرورش کا کیا طریقہ ہوگا اس لیے حکمت کا تقاضا تھا کہ بچہ کی پرورش کے متعلق ماں باپ پر جو احکام ہیں وہ اس موقع پر بیان کر دیئے جائیں لہٰذا یہاں ان مسائل کا بیان ہوا۔ آیت کا خلاصہ اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ دوسال مکمل کرانے کا حکم اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے کیونکہ دو سال کے بعد بچے کو دودھ پلانا ناجائز ہوتا ہے اگرچہ اڑھائی سال تک دودھ پلانے سے حرمت ِ رضاعت ثابت ہوجاتی ہے اور اگر وہ میاں بیوی باہمی مشورے سے کسی اور سے بچے کو دودھ پلوانا چاہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں البتہ اس صورت میں دودھ پلانے والی عورت کو اس کی اجرت صحیح طریقے سے ادا کی جائے گی۔ ماں کو اس کی اولاد کی وجہ سے تکلیف نہ دی جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد سے تکلیف دی جائے۔ ماں کو ضَرر دینا یہ ہے کہ جس صورت میں اس پر دودھ پلانا ضروری نہیں اس میں اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے اور باپ کو ضرر دینا یہ ہے کہ اس کی طاقت سے زیادہ اس پر ذمہ داری ڈالی جائے۔ یا آیت کا یہ معنیٰ ہے کہ نہ ماں بچے کو تکلیف دے اور نہ باپ۔ ماں کا بچے کو ضرر دینا یہ ہے کہ اس کو وقت پر دودھ نہ دے اور اس کی نگرانی نہ رکھے یا اپنے ساتھ مانوس کر لینے کے بعد چھوڑ دے اور باپ کا بچے کو ضرر دینا یہ ہے کہ مانوس بچہ کو ماں سے چھین لے یا ماں کے حق میں کوتاہی کرے جس سے بچہ کو نقصان پہنچے ۔یہاں یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ دودھ پلانے کے حوالے سے جو باپ کا قائم مقام ہے اس کا بھی یہی حکم ہے ۔
بچے کو دودھ پلانے کے متعلق چند احکام:
(1)…ماں خواہ مطلقہ ہو یا نہ ہو اس پر اپنے بچے کو دودھ پلانا واجب ہے بشرطیکہ باپ کو اجرت پر دودھ پلوانے کی قدرت نہ ہویا کوئی دودھ پلانے والی میسر نہ آئے یابچہ ماں کے سوا اور کسی کا دودھ قبول نہ کرے اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی بچہ کی پرورش خاص ماں کے دودھ پر موقوف نہ ہو تو ماں پر دودھ پلانا واجب نہیں مستحب ہے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳۳، ۱ / ۲۸۳)
(2)… دودھ پلانے میں دو سال کی مدت کا پورا کرنا لازم نہیں۔ اگر بچہ کو ضرورت نہ رہے اور دودھ چھڑانے میں اس کے لیے خطرہ نہ ہو تو اس سے کم مدت میں بھی چھڑانا ، جائز ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳۳، ۱ / ۱۷۳)
(3)… بچہ کی پرورش اور اس کو دودھ پلوانا باپ کے ذمہ واجب ہے اس کے لیے وہ دودھ پلانے والی مقرر کرے لیکن اگر ماں اپنی رغبت سے بچہ کو دودھ پلائے تو مستحب ہے۔
(4)…شوہر اپنی بیوی کو بچہ کے دودھ پلانے کے لیے مجبور نہیں کرسکتا اور نہ عورت شوہر سے بچہ کے دودھ پلانے کی اجرت طلب کرسکتی ہے جب تک کہ اس کے نکاح یا عدت میں رہے۔
(5)… اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہواور عدت گزر چکی ہوتو وہ اس سے بچہ کے دودھ پلانے کی اجرت لے سکتی ہے۔
(6)…بچے کے اخراجات باپ کے ذمہ ہوں گے نہ کہ ماں کے ذمہ۔
آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بچے کا نسب باپ کی طرف شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ’’مَوْلُوْدٌ‘‘ یعنی ’’بچے ‘‘کو ’’لَهٗ‘‘یعنی مذکر کی ضمیر کی طرف منسوب کرکے بیان فرمایا، لہٰذا اگر باپ سید ہو اور ماں غیر سیدہو تو بچہ سید ہے اور اگر باپ غیر سید اور ماں سیدانی ہو تو بچہ غیر سید ہی شمار ہوگا۔
{وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ: اور جو باپ کا قائم مقام ہے اس پر بھی ایسا ہی ہے۔} یعنی اگر باپ فوت ہوگیا ہو تو جو ذمہ داریاں باپ پر ہوتی ہیں وہ اب اُس کے قائم مقام پر ہو ں گی۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.