Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 283 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ: اور اگر تم سفر میں ہو۔} یہاں گروی رکھنے کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر تم حالت ِ سفر میں ہو اور قرض کی ضرورت پیش آجائے اور تمہیں کوئی لکھنے والا نہ ملے یا لکھنے کا موقع نہ ملے کہ اوپر بیان کئے گئے حکم پر عمل ہوسکے تو مقروض قرض خواہ کے قبضے میں کوئی چیز رہن رکھوا دے ۔ ہاں اگر تمہیں ایک دوسرے پر اعتماد ہو اور اس وجہ سے تم کوئی تحریر وغیرہ نہ لکھو تو اب مقروض کو چاہیے کہ جب اسے امانت دار سمجھا گیا ہے تو وہ اس حسنِ ظن کو پورا کرے اور اپنی امانت یعنی قرض وقت پر ادا کردے اور اس ادائیگی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔
رہن کے چندمسائل:
(1)… قرض وغیرہ ادھار کے معاملات میں رہن رکھنے کا حکم استحبابی ہے۔
(2)… حالتِ سفر میں رَہن یعنی گروی رکھنا آیت سے ثابت ہوا اور غیر سفر کی حالت میں حدیث سے ثابت ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری اور سنن ترمذی میں ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینہ طیبہ میں اپنی زرہ مبارک یہودی کے پاس گروی رکھ کر بیس صاع جَو لئے تھے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب شراء النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالنسیئۃ، ۲ / ۱۰، الحدیث: ۲۰۶۹، ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی الرخصۃ فی الشراء الی الاجل، ۳ / ۸، الحدیث: ۱۲۱۹)
(3)… جس چیز کو گروی رکھا جائے وہ قرض خواہ کے قبضہ میں دینا ضروری ہے۔ بغیر قبضہ کے رہن نہیں ہوسکتا۔(فتاوی رضویہ، ۲۵ / ۲۴۷)
رہن کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت جلد 3 حصہ 17سے رہن کا بیان مطالعہ فرمائیں۔
سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 282اور 283سے متعلق اہم تنبیہ:
اس رکوع کی دونوں آیات پر غور کریں اور سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے خالصتاً دنیاوی مالی معاملات میں بھی ہمیں کتنے واضح حکم ارشاد فرمائے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا دین کامل ہے کہ اس میں عقائد و عبادات کے ساتھ معاملات تک کا بھی بیان ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حقوق ُالعباد نہایت اہم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے ان کا بیان فرمایا ۔نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت کے احکام میں بے پناہ حکمتیں ہیں او ر ان میں ہماری بہت زیادہ بھلائی ہے، چنانچہ اس آیت میں جتنا غور کریں اتنا ہی واضح ہوگا کہ کہاں کہاں اورکس کس طرح ہمیں اس حکم سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ لکھنا اور حساب کتاب کا علم سیکھنا بہت مفید ہے لہٰذا اگر کوئی حسنِ نیت سے اکاؤنٹنگ کا علم سیکھتا ہے تو مستحقِ اجر ہے جبکہ سود وغیرہ کا حساب کتاب رکھنے سے احتراز کرے۔
{وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ: اور گواہی نہ چھپاؤ۔} گواہی سے متعلق چند احکام اوپر بیان ہوئے۔ یہاں صراحت سے بیان فرمایا کہ گواہی نہ چھپاؤ کیونکہ گواہی کو چھپانا حرام اور دل کے گناہگار ہونے کی علامت ہے کیونکہ اس میں صاحبِ حق کے حق کو ضائع کرنا پایا جاتاہے۔ گواہی چھپانا کبیرہ گناہ ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک حدیث مروی ہے کہ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا اور جھوٹی گواہی دینا اور گواہی کو چھپانا ہے۔(شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان، ۱ / ۲۷۱، الحدیث: ۲۹۱)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.