Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 4 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ:اور وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا ۔ }اس آیت میں اہلِ کتاب کے وہ مومنین مراد ہیں جو اپنی کتاب پر اور تمام پچھلی آسمانی کتابوں پراور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہونے والی وحیوں پر ایمان لائے اور قرآن پاک پر بھی ایمان لائے۔ اس آیت میں ’’مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ ‘‘ سے تمام قرآن پاک اور پوری شریعت مراد ہے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۱ / ۱۹، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۲۱، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کی کتابوں وغیرہ پر ایمان لانے کا شرعی حکم:
یاد رکھیں کہ جس طرح قرآن پاک پر ایمان لانا ہر مکلف پر’’فرض‘‘ ہے اسی طرح پہلی کتابوں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جوگزشتہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئیں البتہ ان کے جو احکام ہماری شریعت میں منسوخ ہو گئے ان پر عمل درست نہیں مگر پھر بھی ایمان ضروری ہے مثلاً پچھلی کئی شریعتوں میں بیت المقدس قبلہ تھالہٰذا اس پر ایمان لانا تو ہمارے لیے ضروری ہے مگر عمل یعنی نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں ، یہ حکم منسوخ ہوچکا۔ نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن کریم سے پہلے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل فرمایا ان سب پر اجمالاً ایمان لانا ’’فرض عین‘‘ ہے یعنی یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام پر کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں جو کچھ بیان فرمایا سب حق ہے۔ قرآن شریف پریوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ ہمارے پاس جو موجود ہے اس کا ایک ایک لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برحق ہے بقیہ تفصیلاً جاننا ’’فرضِ کفایہ‘‘ ہے لہٰذا عوام پر اس کی تفصیلات کا علم حاصل کرنا فرض نہیں جب کہ علماء موجود ہوں جنہوں نے یہ علم حاصل کرلیا ہو۔
{وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ:اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔} یعنی متقی لوگ قیامت پر اور جو کچھ اس میں جزاوحساب وغیرہ ہے سب پر ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اس میں انہیں ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے۔اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا آخرت کے متعلق عقیدہ درست نہیں کیونکہ ان میں سے ہرایک کا یہ عقیدہ تھا کہ ان کے علاوہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگاجیسا کہ سورہ بقرہ آیت 111میں ہے اور خصوصاً یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہم اگرجہنم میں گئے تو چند دن کیلئے ہی جائیں گے، اس کے بعد سیدھے جنت میں جیسا کہ سورہ بقرہ آیت 80 میں ہے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۱ / ۱۹، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۲۱، ملتقطاً)
اس طرح کے فاسد اور من گھڑت خیالات جب ذہن میں جم جاتے ہیں تو پھر ان کی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.