Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 6 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ:بیشک وہ لوگ جن کی قسمت میں کفر ہے ان کے لئے برابر ہے ۔}چونکہ ٹھنڈک کی پہچان گرمی سے ، دن کی پہچان رات سے اور اچھائی کی پہچان برائی سے ہوتی ہے اسی لئے اہل ایمان کے بعدکافروں اور منافقوں کے افعال اور ان کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ ان کی پہچان بھی واضح ہوجائے اور آدمی کے سامنے تمام راہیں نمایاں ہوجائیں۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ لوگ جن کی قسمت میں کفر ہے جیسے ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ کفار،ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انہیں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی مخالفت کرنے کے عذاب سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ،یہ کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو پہلے سے ہی معلوم ہے کہ یہ لوگ ایمان سے محروم ہیں۔(جلالین مع جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۱ / ۲۰-۲۱)
کفر کی تعریف اورازلی کافروں کو تبلیغ کرنے کا حکم دینے کی وجہ:
یہاں دو باتیں ذہن نشین رکھیں :
(1)… ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکار یا تحقیر و استہزاء کرنا کفر ہے اورضروریاتِ دین ، اسلام کے وہ احکام ہیں ،جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں ، جیسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت، نماز، روزے ، حج، جنت،دوزخ ، قیامت میں اُٹھایا جانا وغیرہا۔ عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو علماء کے طبقہ میں شمار نہ کئے جاتے ہوں مگر علماء کی صحبت میں بیٹھنے والے ہوں اورعلمی مسائل کا ذوق رکھتے ہوں ،اس سے وہ لوگ مراد نہیں جو دور دراز جنگلوں پہاڑوں میں رہنے والے ہوں جنہیں صحیح کلمہ پڑھنا بھی نہ آتا ہو کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اِس دینی ضروری کو غیرضروری نہ کردے گا، البتہ ایسے لوگوں کے مسلمان ہونے کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ ضروریاتِ دین کاانکار کرنے والے نہ ہوں اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے اور ان سب پر اجمالاً ایمان لائے ہوں۔(بہارِ شریعت، ۱ / ۱۷۲-۱۷۳، ملخصاً)
(2)… ایمان سے محروم کفار کے بارے میں معلوم ہونے کے باوجود انہیں تبلیغ کرنے کاحکم اس لئے دیاگیا تاکہ ان پر حجت پوری ہو جائے اور قیامت کے دن ان کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا‘‘(النساء: ۱۶۵)
ترجمۂ کنزالعرفان:(ہم نے )رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے (بھیجے)تاکہ رسولوں (کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لئے کوئی عذر (باقی )نہ رہے اور اللہ زبردست ہے،حکمت والا ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِـعَ اٰیٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ نَخْزٰى‘‘ (طہ: ۱۳۴)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور اگر ہم انہیں رسول کے آنے سے پہلے کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو ضرور کہتے: اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے تیری آیتوں کی پیروی کرتے؟
نیز انہیں تبلیغ کرنے سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہواکہ وہ اگرچہ ایمان نہیں لائے لیکن حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو انہیں تبلیغ کرنے کا ثواب ضرور ملے گا اور یہ بات ہر مبلغ کو پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ اس کا کام تبلیغ کرنااور رضائے الہٰی پانا ہے، لوگوں کو سیدھی راہ پر لاکر ہی چھوڑنا نہیں لہٰذا مبلغ نیکی کی دعوت دیتا رہے اور نتائج اللہ تعالیٰ کے حوالے کردے اور لوگوں کے نیکی کی دعوت قبول نہ کرنے سے مایوس ہونے کی بجائے ا س ثواب پر نظر رکھے جو نیکی کی دعوت دینے کی صورت میں اسے آخرت میں ملنے والاہے۔