Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 62 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ:اور یاد کروجب ہم نے تم سے عہد لیا۔}اس آیت میں یہودیوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ وقت یاد کرو کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ وہ توریت کومانیں گے اور اس پر عمل کریں گے لیکن پھر انہوں نے اس کے احکام کوبوجھ سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کردیاحالانکہ انہوں نے خود بڑی التجاء کرکے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ایسی آسمانی کتاب کی درخواست کی تھی جس میں قوانینِ شریعت اور آئینِ عبادت مفصل مذکور ہوں اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے بار بار اس کے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کا عہد لیا تھا اور جب وہ کتاب عطا ہوئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور عہد پورا نہ کیا ۔ جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد توڑا تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے طور پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سروں کے اوپر ہوا میں معلق کردیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا :تم یاتو عہد قبول کرلو ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم کچل ڈالے جاؤ گے۔‘‘ اس میں صورۃً عہد پورا کرنے پر مجبور کرنا پایا جارہا ہے لیکن درحقیقت پہاڑ کا سروں پر معلق کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی قوی دلیل ہے جس سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ بے شک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور ان کی اطاعت اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور یہ اطمینان ان کو ماننے اور عہد پورا کرنے کا اصل سبب ہے۔
یاد رہے کہ دین قبول کرنے پر جبر نہیں کیا جاسکتا البتہ دین قبول کرنے کے بعد اس کے احکام پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ کسی کو اپنے ملک میں آنے پر حکومت مجبور نہیں کرتی لیکن جب کوئی ملک میں آجائے تو حکومت اسے قانون پر عمل کرنے پر ضرور مجبور کرے گی۔
احکامِ قرآن پر عمل کی ترغیب:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اللہ تعالیٰ کی کتابوں سے مقصود ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا ہے نہ فقط زبان سے بِالتَّرتیب ان کی تلاوت کرنا۔اس کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی بادشاہ اپنی سلطنت کے کسی حکمران کی طرف کوئی خط بھیجے اور اس میں حکم دے کہ فلاں فلاں شہر میں اس کے لئے ایک محل تعمیر کر دیا جائے اور جب وہ خط اس حکمران تک پہنچے تو وہ اس میں دئیے گئے حکم کے مطابق محل تعمیر نہ کرے البتہ اس خط کو روزانہ پڑھتا رہے ،تو جب بادشاہ وہاں پہنچے گا اور محل نہ پائے گا تو ظاہر ہے کہ وہ حکمران عتاب بلکہ سزا کا مستحق ہو گا کیونکہ اس نے بادشاہ کا حکم پڑھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا تو قرآن بھی اسی خط کی طرح ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ دین کے ارکان جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کی تعمیر کریں اور بندے فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہ کریں تو ان کا فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہنا حقیقی طور پر فائدہ مند نہیں۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۱۵۵، ملخصاً)
یہی بات امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی متعدد جگہ ارشاد فرمائی ہے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.