Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 91 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ: اور جب ان سے کہا جائے ۔}اس آیت میں یہودیوں کا ایک اور قبیح فعل بیان کیا جا رہا ہے کہ جب ان سے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی تمام کتابوں پر ایمان لاؤ تو ا س کے جواب میں وہ کہتے ہیں : ہم صرف تورات پر ایمان لائیں گے جو کہ ہم پر نازل ہوئی ہے۔ اِس سے ان کا مقصد دیگر آسمانی کتابوں اور قرآن مجید کا انکار کرنا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن بھی حق ہے اور یہ ان یہودیوں کے پاس موجودتورات کی تصدیق کرنے والا ہے اور جب تورات میں حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت کے بارے میں خبریں موجود ہیں اور تم تورات پر ایمان لانے کے دعویدار ہو تو پھر محمدِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت اوران پر نازل کی گئی کتاب قرآن مجید کا انکار کیوں کرتے ہو اور اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ان یہودیوں سے فرمائیں کہ اگر تم تورات پر ایمان لانے کے اتنے ہی بڑے دعویدار ہو تو یہ بتاؤ کہ پہلے تم انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کیوں شہید کرتے تھے حالانکہ تورات میں تو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنے سے منع کیا گیا تھا۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۱ / ۶۰۲-۶۰۴، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۱ / ۶۹-۷۰، ملتقطاً)
آیت’’وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ‘‘سے معلوم ہونے والے احکام:
(1)… اس آیت سے معلوم ہوا کہ تمام آسمانی کتابوں پر اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرمانوں پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان میں سے ایک کا بھی انکار کفر ہے، یونہی تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان میں سے ایک کا بھی انکار کرنا کفر ہے۔
(2)… انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم ایمان کا رکنِ اعلیٰ ہے اور ان کی توہین کرنا کفر ہے۔
(3)…اللہ تعالیٰ کے نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنا کفر ہے۔
(4)…کفر سے راضی ہونا بھی کفر ہے کیونکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے کے بنی اسرائیل نے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید نہ کیا تھا مگر چونکہ وہ قاتلوں کی اِس حرکت سے راضی تھے اور ان کواپنا بڑا مانتے تھے اور انہیں عظمت سے یاد کرتے تھے اس لئے انہیں بھی قاتلوں میں شامل کیا گیا۔آج کل بھی اگر کوئی بذاتِ خود گستاخی نہ بھی کرے لیکن گستاخوں کو اچھا سمجھے، انہیں اپنا بڑا مانے تو وہ انہیں میں شامل ہے اور وہ بھی گستاخ ہی ہے۔ حضرت عُرس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جب زمین میں گناہ کیا جائے تو جو وہاں موجود ہے مگر اسے برا جانتا ہے،وہ اس کی مثل ہے جو وہاں نہیں ہے اور جو وہاں نہیں ہے مگر اس پر راضی ہے، وہ اس کی مثل ہے جو وہاں حاضر ہے۔(ابو داود، کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۴۳۴۵)