Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Buruj Ayat 9 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(27) | Tarteeb e Tilawat:(85) | Mushtamil e Para:(30) | Total Aayaat:(22) |
Total Ruku:(1) | Total Words:(124) | Total Letters:(461) |
{وَ مَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ: اور انھیں مسلمانوں کی طرف سے صرف یہی بات بری لگی کہ وہ اللّٰہ پر ایمان لے آئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ بادشاہ اور مسلمانوں کو آگ میں جلانے والے اس کے ساتھیوں کو مسلمانوں کی طرف سے صرف یہی بات بری لگی کہ وہ اس اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لے آئے جو عزت والا اور ہر حال میں تعریف کے لائق ہے اور اسی کے لئے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے اور اس سلطنت میں اس کا کوئی شریک نہیں اور اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے اور اس سے مخلوق کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں بلکہ وہ ان کے تمام اعمال کو جانتا ہے۔( تفسیر قرطبی، البروج، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۱۰ / ۲۰۸، الجزء التاسع عشر)
علامہ ابو سعودمحمد بن محمد عمادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ آیت (نمبر9) میں کھائی میں گرنے والے مسلمانوں کے لئے (جنت کا) وعدہ اور کھائی میں گرانے والے کافروں کے لئے (جہنم کے عذاب کی) وعید ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اور اسی میں کفار اور مسلمانوں کے عمل بھی داخل ہیں اور ان کے اعمال کو جاننا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دونوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا دی جائے۔( ابو سعود، البروج، تحت الآیۃ: ۹، ۵ / ۸۵۵)
کافر مومن کے کس عمل کی وجہ سے ا س کا دشمن ہے؟
آیت نمبر8سے معلوم ہو اکہ کافر مومن کے ایمان کی وجہ سے اس کا دشمن ہے اور کوئی مومن، مومن رہتے ہوئے کفار کو خوش نہیں کرسکتا۔یہی چیز قرآن مجید میں اور مقامات پر بھی بیان کی گئی ہے ،چنانچہ ایک مقام پر اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُۙ-وَ اَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ‘‘(مائدہ:۵۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ : اے اہلِ کتاب! تمہیں ہماری طرف سے یہی برالگا ہے کہ ہم اللّٰہ پر اور جو ہماریطرف نازل کیا گیا اس پر اور جو پہلے نازل کیا گیا اس پر ایمان لائے ہیں اور بیشک تمہارے اکثر لوگ فاسق ہیں ۔
اورارشاد فرمایا: ’’وَ لَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِـعَ مِلَّتَهُمْؕ-قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰىؕ-وَ لَىٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِۙ-مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ‘‘(بقرہ:۱۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہودی اور عیسائی ہرگز آپ سے راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرلیں ۔ تم فرمادو: اللّٰہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے اور (اے مخاطَب!)اگر تیرے پاس علم آجانے کے بعد بھی تو ان کی خواہشات کی پیروی کرے گا تو تجھے اللّٰہ سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا او ر نہ کوئی مددگارہوگا۔
مسلمانوں کے اَخلاق کیسے ہونے چاہئیں :
یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے اخلاق ایسے بلند ہونے چاہئیں کہ کفار کومسلمانوں میں اخلاقی عیب نکالنے کا کوئی موقع نہ ملے بلکہ وہ مخالف رہیں توصرف ایما ن کی وجہ سے مسلمانوں کے مخالف رہیں ۔ اس سے موجودہ زمانے کے ان مسلمانوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جن کے برے اخلاق کو پیش کر کے دنیا بھر میں مسلمانوں کو اخلاق اور انسانیت سے عاری ثابت کر کے دین ِاسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے۔
مومن کی علامت :
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کی علامت یہ ہے کہ کافر اس سے ناخوش رہیں اور مومن خوش رہیں ، لہٰذا جو کفار کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف ہو وہ دین میں مُداہَنَت کرنے والا ہے۔اس سے ان لوگوں کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا چاہئے جو کفار کی خوشی کے لئے ان کی مذہبی تقریبات منعقد کرتے یا ان میں شرکت کرتے ہیں ،کفار کی خوشی کے لئے اسلام کے احکامات پر عمل کرنا چھوڑتے ہیں اور کفار کی خوشی کے لئے مسلمانوں کو اَذِیَّتیں دیتے ہیں۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.