Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Fajr Ayat 1 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(10) | Tarteeb e Tilawat:(89) | Mushtamil e Para:(30) | Total Aayaat:(30) |
Total Ruku:(1) | Total Words:(156) | Total Letters:(580) |
{وَ الْفَجْرِ: صبح کی قسم۔} اِس صبح سے مراد یا تویکم محرم کی صبح ہے جس سے سال شروع ہوتا ہے ،یا یکم ذی الحجہ کی جس سے دس راتیں ملی ہوئی ہیں جن میں بطورِ خاص حج کے اَیّام آتے ہیں ،یا عیدالاضحی کی صبح مراد ہے کہ یہ وہ صبح ہے جس میں حج کے اہم رکن طوافِ زیارت کا وقت شروع ہوتا ہے، اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے مراد ہر دن کی صبح ہے کیونکہ وہ رات کے گزرنے ، روشنی کے ظاہر ہونے اور تمام جانداروں کے رزق کی طلب کے لئے مُنتشر ہونے کا وقت ہے اور یہ وقت مُردوں کے قبروں سے اُٹھنے کے وقت کے ساتھ مشابہت و مناسبت رکھتا ہے۔(خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۷۴، ملتقطاً)
{وَ لَیَالٍ عَشْرٍ: اور دس راتوں کی۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں کیونکہ یہ زمانہ حج کے اعمال میں مشغول ہونے کا زمانہ ہے۔( خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۷۴)
ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے فضائل :
حدیث شریف میں اس عشرہ کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں ،یہاں ان میں سے دو فضائل ملاحظہ ہوں چنانچہ
(1)… حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں کے مقابلے میں کسی دن کا عمل زیادہ محبوب نہیں ۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، کیا اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد بھی نہیں ؟ارشاد فرمایا:ہاں جہاد بھی نہیں ، البتہ وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں نکلا،پھر ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیا تو اس کا یہ عمل افضل ہے)۔(ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جاء فی العمل فی ایام العشر، ۲ / ۱۹۱، الحدیث: ۷۵۷)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جن دنوں میں اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے ان میں سے کوئی دن ذی الحجہ کے دس دنوں سے زیادہ پسندیدہ نہیں ، ان میں سے (ممنوع دنوں کے علاوہ) ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں اور ہر رات کا قیام لیلۃُ القدر کے قیام کے برابر ہے۔( ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جاء فی العمل فی ایام العشر، ۲ / ۱۹۱، الحدیث: ۷۵۸)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے یہ بھی مروی ہے کہ آیت میں مذکور ان راتوں سے رمضان کے آخری عشرے کی راتیں مراد ہیں کیونکہ ان میں ( اعتکاف مسنون ہے اور انہی راتوں میں ) لیلۃُ القدر آتی ہے۔(خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۳۷۴)
رمضان کے آخری عشرے کی اہمیت:
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ رمضان کے آخری عشرے میں خاص طور پر اِعتکاف فرماتے، اس کی طاق راتوں میں شب ِقدر تلاش کرنے کی ترغیب دیتے اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں خوب جدو جہد فرماتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے اور فرمایا کرتے کہ شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔(بخاری، کتاب فضل لیلۃ القدر، باب تحرّی لیلۃ القدر فی الوتر۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۶۲، الحدیث: ۲۰۲۰)
نیزحضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ رمضان کے آخری عشرے میں باقی دنوں کی بہ نسبت عبادت میں زیادہ جدو جہد کرتے تھے۔(مسلم، کتاب الاعتکاف، باب الاجتہاد فی العشر الاواخر فی شہر رمضان، ص۵۹۹، الحدیث: ۸(۱۱۷۵))
بعض مفسرین نے فرمایا کہ آیت میں مذکور ان راتوں سے مراد محرمُ الحرام کے پہلے عشرے کی دس راتیں ہیں (کہ ان دس دنوں میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے) اور اس عشرے میں عاشوراء کا دن بھی ہے۔(خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۳۷۴)
عاشوراء کے فضائل:
یہاں عاشوراء کے دو فضائل بھی ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :جب رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھے ہوئے ہیں ،آپ نے ارشاد فرمایا’’یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کی:یہ ایک عظمت والا دن ہے اور یہ وہ دن ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو ا س دن (شکرانے کے طور پر) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے روزہ رکھا۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مُوافقت کرنے میں تم سے زیادہ حقدار ہوں ،چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اوراس دن روزہ رکھنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا۔(بخاری، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، ۱ / ۶۵۶، الحدیث: ۲۰۰۴)
(2)…حضرت ابوقتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ر وایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے اللّٰہ تعالیٰ پر گمان ہے کہ عاشورا ء کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹادیتاہے۔(مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب ثلاثۃ ایام من کل شہر... الخ، ص۵۸۹، الحدیث: ۱۹۶(۱۱۶۲))
نوٹ:یاد رہے کہ جو عاشوراء کے دن روزہ رکھنا چاہے تواسے چاہئے کہ وہ 9محرم یا 11محرم کا روزہ بھی رکھے تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو سکے، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عاشوراء کے دن کا روزہ رکھو اور اِس میں یہودیوں کی (اس طرح) مخالفت کرو کہ اس سے پہلے یا بعد میں بھی ایک دن کا روزہ رکھو۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن العباس... الخ، ۱ / ۵۱۸، الحدیث: ۲۱۵۴)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.