Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Fath Ayat 26 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(111) | Tarteeb e Tilawat:(48) | Mushtamil e Para:(26) | Total Aayaat:(29) |
Total Ruku:(4) | Total Words:(638) | Total Letters:(2485) |
{اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ: جب کافروں نے اپنے دلوں میں زمانۂ جاہلِیَّت کی ہٹ دھرمی جیسی ہٹ دھرمی رکھی۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ وقت یاد کریں جب کافروں نے اپنے دلوں میں زمانۂ جاہلِیَّت کی ہٹ دھرمی جیسی ضد رکھی کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو مکے میں داخل ہونے اور کعبہ مُعَظَّمہ کا طواف کرنے سے روکا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا اطمینان اپنے رسول اور ایمان والوں پر اتارا جس کی برکت سے اُنہوں نے آئندہ سال آنے پر صلح کی، اگر وہ بھی کفارِ قریش کی طرح ضد کرتے تو ضرور جنگ ہوجاتی اور پرہیزگاری کا کلمہ ایمان والوں پر لازم فرمادیا اور کافروں کے مقابلے میں مسلمان اس کلمہ کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دین اور اپنے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت سے مُشَرَّف فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ کافروں کا حال بھی جانتا ہے اور مسلمانوں کی بھی کوئی چیز اس سے مَخفی نہیں ۔(روح البیان ، الفتح ، تحت الآیۃ : ۲۶ ، ۹ / ۴۹-۵۰ ، جلالین ، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۴۲۵، خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۱۶۰، ملتقطاً)
پرہیز گاری کا کلمہ:
اس آیت میں بیان ہواکہ اللہ تعالیٰ نے حُدَیْبِیَہ میں شریک صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ پر پرہیزگاری کا کلمہ لازم فرمادیا،اس کلمے سے مراد ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ ہے اور اسے ’’تقویٰ‘‘ کی طرف اس لئے منسوب کیا گیا کہ یہ تقویٰ و پرہیزگاری حاصل ہونے کا سبب ہے۔( جلالین، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۴۲۵)
حضر ت حمران رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، (حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے) فرمایا: میں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا’’ بے شک میں وہ کلمہ جانتاہوں جسے کوئی بندہ دل سے حق سمجھ کرکہتاہے تواللہ تعالیٰ اسے آگ پرحرام قرار دے دیتا ہے، تو (یہ سن کر) حضرت عمربن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:میں تمہیں بتاتاہوں کہ وہ کون ساہے ،وہ کلمہ اخلاص ہے جواللہ تعالیٰ نے نبی ٔرحمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اَصحاب پرلازم کیاہے اوروہی پرہیز گاری کا کلمہ ہے جس کی ترغیب اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے چچاابوطالب کوموت کے وقت دلائی،اوروہ اس بات کی شہادت دیناہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود نہیں ۔( درمنثور، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۵۳۶)
آیت ’’فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
(1)…حدیبیہ میں شریک تمام حضرات مخلص مومن تھے، کیونکہ آیت میں مذکور سکینہ سب پر اتر ا،تو اگر وہ بیعت ِ رضوان والے حضرات مومن نہ تھے تو پھر دنیا میں مومن کون ہے؟
(2)… پرہیز گاری کا کلمہ یعنی ایمان اور اخلاص ان سے جدا ہو ہی نہیں سکتا، اس میں ان سب کے حسنِ خاتمہ کی یقینی خبر ہے کہ ان صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے دنیا میں ،وفات کے وقت ،قبر میں اور حشر میں تقویٰ جدا نہ ہو سکے گا۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.