Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Fatihah Ayat 5 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(5) | Tarteeb e Tilawat:(1) | Mushtamil e Para:(1) | Total Aayaat:(7) |
Total Ruku:(1) | Total Words:(27) | Total Letters:(122) |
{ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ:ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔}اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی معرفت کے بعد اس کی عبادت اور حقیقی مددگار ہونے کا ذکر کیا گیا اور اب یہاں سے ایک دعا سکھائی جا رہی ہے کہ بندہ یوں عرض کرے: اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ،تو نے اپنی توفیق سے ہمیں سیدھاراستہ دکھا دیااب ہماری اس راستے کی طرف ہدایت میں اضافہ فرما اور ہمیں اس پر ثابت قدم رکھ۔
صراطِ مستقیم سے مراد’’عقائد کا سیدھا راستہ ‘‘ہے، جس پر تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چلے یا اِس سے مراد’’اسلام کا سیدھا راستہ‘‘ہے جس پرصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ، بزرگانِ دین اور اولیاءِ عِظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ چلے جیسا کہ اگلی آیت میں موجود بھی ہے اور یہ راستہ اہلسنّت کا ہے کہ آج تک اولیاء ِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ صرف اِسی مسلک ِاہلسنّت میں گزرے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہی کے راستے پر چلنے اور انہی کے ساتھ ہونے کا فرمایا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘(التوبۃ: ۱۱۹)
ترجمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
اور حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی،اور جب تم (لوگوں میں ) اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سواد اعظم (یعنی مسلمانوں کے بڑے گروہ) کے ساتھ ہو جاؤ۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)
حضرت عبداللہ بن عمرورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’بنی اسرائیل 72فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت 73فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی،ان میں سے ایک کے علاوہ سب جہنم میں جائیں گے۔صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یارسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،نجات پانے والا فرقہ کونسا ہے؟ارشاد فرمایا:’’(وہ اس طریقے پر ہو گا)جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی افتراق۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۹۱-۲۹۲، الحدیث: ۲۶۵۰)
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع عطا فرمائے ہیں ،ان میں سے چند یہ ہیں :
(1)…انسان کی ظاہری باطنی صلاحیتیں جنہیں استعمال کر کے وہ ہدایت حاصل کرسکتا ہے۔
(2)…آسمانوں ، زمینوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں جن میں غورو فکر کر کے انسان ہدایت پا سکتا ہے۔
(3)…اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابیں ،ان میں سے تورات ،انجیل اور زبور قرآن پاک نازل ہونے سے پہلے لوگوں کے لئے ہدایت کاباعث تھیں اوراب قرآن مجید لوگوں کے لئے ہدایت حاصل کرنے کاذریعہ ہے۔
(4)…اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے خاص بندے انبیاء کرام اور مرسلینِ عِظام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام،یہ اپنی اپنی قوموں کے لئے ہدایت حاصل کرنے کا ذریعہ تھے اور ہمارے نبی حضرت محمدمصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہیں۔
آیت’’ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستے پرثابت قدمی کی دعا مانگنی چاہئے کیونکہ سیدھا راستہ منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے اور ٹیڑھا راستہ مقصود تک نہیں پہنچاتا ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ عقل والے اس طرح دعا مانگتے ہیں :
’’رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ‘‘( اٰل عمران: ۸)
ترجمۂ کنزالعرفان:اے ہمارے رب! تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے ،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بڑاعطا فرمانے والاہے۔
اورحضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کثرت سے یہ دعا فرمایا کرتے تھے: ’’یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبْ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ‘‘اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ تو میں نے عرض کی :یارسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم آپ پر اور جو کچھ آپ لائے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں تو کیا آپ کو ہمارے بارے میں کوئی خوف ہے؟حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! بے شک دل اللہ تعالیٰ کی(شان کے لائق ا س کی) انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جیسے چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے۔(ترمذی، کتاب القدر، باب ما جاء انّ القلوب۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۵، الحدیث: ۲۱۴۷)
(2)… عبادت کرنے کے بعد بندے کو دعا میں مشغول ہونا چاہیے۔
(3)…صرف اپنے لئے دعا نہیں مانگنی چاہئے بلکہ سب مسلمانوں کے لئے دعا مانگنی چاہئے کہ اس طرح دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.