Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Fatihah Ayat 6 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(5) | Tarteeb e Tilawat:(1) | Mushtamil e Para:(1) | Total Aayaat:(7) |
Total Ruku:(1) | Total Words:(27) | Total Letters:(122) |
{صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ:ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے احسان کیا۔}یہ جملہ اس سے پہلی آیت کی تفسیر ہے کہ صراطِ مستقیم سے مراد ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان و انعام فرمایااور جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل و احسان فرمایا ہے ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا‘‘(النساء:۶۹)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہونگے جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔
آیت’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… جن امور پر بزرگانِ دین کا عمل رہا ہو وہ صراطِ مستقیم میں داخل ہے۔
(2)…امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بعض مفسرین نے فرمایا کہ ’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ کے بعد’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ‘‘ کو ذکر کرنا ا س بات کی دلیل ہے کہ مرید ہدایت اورمُکَاشَفَہ کے مقامات تک اسی صورت پہنچ سکتا ہے جب وہ کسی ایسے (کامل)پیر کی پیروی کرے جو درست راستے کی طرف اس کی رہنمائی کرے، غلطیوں اور گمراہیوں کی جگہوں سے اسے بچائے کیونکہ اکثر لوگوں پر نقص غالب ہے اور ان کی عقلیں حق کو سمجھنے ،صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے سے قاصر ہیں تو ایک ایسے کامل شخص کا ہونا ضروری ہے جس کی ناقص شخص پیروی کرے یہاں تک کہ اِس کامل شخص کی عقل کے نور سے اُ س ناقص شخص کی عقل بھی مضبوط ہو جائے تو اس صورت میں وہ سعادتوں کے درجات اور کمالات کی بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔(تفسیر کبیر، الفاتحۃ، الباب الثالث، ۱ / ۱۶۴)
{غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ:نہ کہ ان کا راستہ جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔ }جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا ان سے مراد یہودی اوربہکے ہوؤں سے مراد عیسائی ہیں جیساکہ سنن ترمذی، جلد4،صفحہ444، حدیث نمبر 2964میں ہے اور امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہ بھی لکھا ہے کہ جن پر غضب ہوا ان سے مراد بدعمل ہیں اور بہکے ہوؤں سے مراد بدعقیدہ لوگ ہیں۔(تفسیر کبیر، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۱ / ۲۲۲-۲۲۳) ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ عقائد ،اعمال، سیرت،صورت ہر اعتبار سے یہودیوں ، عیسائیوں اور تمام کفار سے الگ رہے، نہ ان کے طور طریقے اپنائے اور نہ ہی ان کے رسم ورواج اور فیشن اِختیار کرے اوران کی دوستیوں اور صحبتوں سے دور رہتے ہوئے اپنے آپ کو قرآن وسنّت کے سانچے میں ڈھالنے میں ہی اپنے لئے دونوں جہان کی سعادت تصور کرے۔ ([1])
آیت ’’وَ لَا الضَّآلِّیْنَ‘‘ سے متعلق شرعی مسئلہ:
بعض لوگ ’’وَ لَا الضَّآلِّیْنَ‘‘ کو ’’وَلَا الظَّآ لِّیْن‘‘ پڑھتے ہیں ،ان کا ایسا کرنا حرام ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ض،ظ،ذ،ز سب حروف متبائنہ،متغائرہ (یعنی ایک دوسرے سے جداجدا حروف) ہیں ،ان میں سے کسی کو دوسرے سے تلاوتِ قرآن میں قصدا ًبدلنا،اِس کی جگہ اُسے پڑھنا، نماز میں ہو خواہ بیرون نماز، حرام قطعی وگناہِ عظیم،اِفْتِراء عَلَی اللہ و تحریف ِکتاب کریم ہے۔(فتاوی رضویہ، ۶ / ۳۰۵) اس مسئلے کے بارے میں دلائل کے ساتھ تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاوی رضویہ کی چھٹی جلد میں موجود ان رسائل کا مطالعہ فرمائیں : (۱) نِعْمَ الزَّادْ لِرَوْمِ الضَّادْ۔(ضاد کی ادائیگی کا بہترین طریقہ)(۲)اِلْجَامُ الصَّادْ عَنْ سُنَنِ الضَّادْ۔(ضاد کی ادائیگی کے غلط اور صحیح طریقوں کا بیان) {اٰمین}اس کا ایک معنی ہے :اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ،تو قبول فرما۔دوسرا معنی ہے :اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ،تو ایسا ہی فرما۔
اٰمین سے متعلق شرعی مسائل:
(1)…یہ قرآن مجید کا کلمہ نہیں ہے ۔
(2)… نماز کے اندر اور نماز سے باہر جب بھی ’’سورۂ فاتحہ‘‘ ختم کی جائے تو ا س کے بعد اٰمین کہنا سنت ہے۔
(3) … احناف کے نزدیک نماز میں آمین بلند آواز سے نہیں بلکہ آہستہ کہی جائے گی۔
[1] ۔۔۔۔ اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کے لئے تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ،، دعوتِ اسلامی،، سے وابستہ ہو جانا بے حد مفید ہے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.