Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Hajj Ayat 27 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(103) | Tarteeb e Tilawat:(22) | Mushtamil e Para:(17) | Total Aayaat:(78) |
Total Ruku:(10) | Total Words:(1439) | Total Letters:(5238) |
{وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ:اور لوگوں میں حج کا عام اعلان کردو ۔} کعبہ شریف کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوحکم دیا گیا کہ اب لوگوں کومیرے گھرآنے کی دعوت دو، چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ابوقبیس پہاڑ پر چڑھ کر جہان کے لوگوں کو ندا کردی کہ بیتُ اللہ کا حج کرو ۔ جن کی قسمت میں حج کرنا لکھا تھا انہوں نے اپنے باپوں کی پشتوں اور ماؤں کے پیٹوں سے جواب دیا ’’لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ‘‘ یعنی میں حاضر ہوں ، اے اللّٰہ! میں حاضر ہوں ۔ حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ اس آیت ’’اَذِّنْ‘‘ میں رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خطاب ہے ،چنانچہ حجۃ الوداع میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اعلان کردیا اور ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تم پر حج فرض کیا تو حج کرو۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۷۳۶، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۳۰۵، ملتقطاً)
{یَاْتُوْكَ رِجَالًا:وہ تمہارے پاس پیدل آئیں گے ۔} یعنی جب آپ لوگوں میں حج کا اعلان کریں گے تو لوگ آپ کے پاس پیدل اور ہر دبلی اونٹنی پرسوار ہوکرآئیں گے جو دور کی راہ سے آتی ہیں اور کثیر سفر کرنے کی وجہ سے دبلی ہو جاتی ہیں۔(خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۳۰۵-۳۰۶)
پیدل حج کرنے کے فضائل:
اس آیت میں حج کے لئے پیدل آنے والوں کا پہلے ذکر کیا گیا ،اس سے معلوم ہو اکہ پیدل حج کرنا بہت فضیلت کا باعث ہے ۔اسی مناسبت سے یہاں مکہ مکرمہ سے پیدل حج کرنے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)… حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے مکہ سے پیدل حج شروع کیا حتّٰی کہ (حج مکمل کرکے) مکہ لوٹ آیا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے سات سو نیکیاں حرم کی نیکیوں میں لکھے گا۔ عرض کی گئی : حرم کی نیکیاں کیا ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’ہر نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکیاں ۔( مستدرک، اول کتاب المناسک، فضیلۃ الحجّ ماشیاً، ۲ / ۱۱۴، الحدیث: ۱۷۳۵)
(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سوار ہو کر حج کرنے والے کے لئے ہر اس قدم کے بدلے میں ستر نیکیاں ہیں جو ا س کی سواری چلے اور پیدل حج کرنے والے کے لئے ہر قدم کے بدلے حرم کی نیکیوں میں سے سات سو نیکیاں ہیں ۔ کسی نے عرض کی:یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حرم کی نیکیاں کیا ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔( مسند البزار، مسند ابن عباس رضی اللہ عنہما، ۱۲ / ۳۱۳، الحدیث: ۵۱۱۹)
{لِیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ:تاکہ وہ اپنے فوائد پر حاضر ہوجائیں ۔} اس سے پہلی آیات میں حج کرنے کا حکم دیا گیا اور اب اس حکم کی حکمت بیان کی جارہی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو حج کے لئے بلائیں تاکہ وہ حج کر کے اپنے دینی اور دُنْیَوی دونوں طرح کے وہ فوائد حاصل کریں جو اس عباد ت کے ساتھ خاص ہیں ، دوسری عبادت میں نہیں پائے جاتے۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ۸ / ۲۲۰، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۷۳۷)
حج کا دینی اور دُنْیَوی فائدہ:
حج کرنے والے کو دینی فائدہ تو یہ حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے اور وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کر لوٹتا ہے جیسے اُس دن گناہوں سے پاک تھاجب وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حج کیا اور (حج کے دوران) کوئی فحش کلام کیا نہ فسق کیا تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کر لوٹے گا جیسے اُس دن تھا جب وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔(بخاری، کتاب الحج، باب فضل الحجّ المبرور، ۱ / ۵۱۲، الحدیث: ۱۵۲۱)
اور حضرت عبد اللہ بن مسعودرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’حج و عمرہ محتاجی اور گناہوں کو ایسے دور کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہے ، چاندی اور سونے کے میل کو دور کردیتی ہے اور حج ِمَبْرُور کا ثواب جنت ہی ہے۔( سنن ترمذی، کتاب الحج، باب ما جاء فی ثواب الحجّ والعمرۃ، ۲ / ۲۱۸، الحدیث: ۸۱۰)
اور دُنْیَوی فائدہ یہ ہے کہ حج کے دنوں میں لوگ تجارت کر کے مالی نفع بھی حاصل کرتے ہیں ۔
{وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ:اور معلوم دنوں میں اللہ کے نام کو یاد کریں ۔} اللہ تعالیٰ کا نام یاد کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حج کرنے والوں کو جوبے زبان مویشیوں اونٹ ، گائے ، بکری اور بھیڑ کے ذریعے رزق دیا انہیں ذبح کرتے وقت وہ ان پر اللہ تعالیٰ کا نام لیں ۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حج کرنے والوں کو جو بے زبان مویشیوں اونٹ ، گائے ، بکری اور بھیڑ سے رزق دیا اس نعمت پر وہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کریں اور اس کی پاکی بیان کریں ۔ معلوم دنوں سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں دو قول ہیں: (1) ان سے ذی الحجہ کے دس دن مراد ہیں ۔ یہ حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبد اللہ بن عباس ،حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا قول ہے اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا مذہب ہے ۔ (2) معلوم دنوں سے قربانی کے دن مراد ہیں ۔ یہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا قول ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا بھی اسی کے قائل ہیں ۔( البحر المحیط، الحج ، تحت الآیۃ : ۲۸ ، ۶ / ۲۳۸ ، تفسیرات احمدیہ ، الحج ، تحت الآیۃ : ۲۸ ، ص۵۳۱، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۷۳۷، ملتقطاً)
{فَكُلُوْا مِنْهَا:تو تم ان سے کھاؤ ۔} دورِ جاہلیّت میں کفار حج کے موقع پر جو جانور ذبح کرتے تھے ان کا گوشت خود نہیں کھاتے تھے ، اس آیت میں ان کا رد کیا گیا اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم حج کے دنوں میں جو جانور ذبح کرو اس کا گوشت خود بھی کھاؤ اور محتاج فقیروں کو بھی کھلاؤ۔( تفسیرات احمدیہ، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۵۳۲، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۷۳۷، ملتقطاً)
حَرم میں کی جانے والی قربانی سے متعلق4شرعی مسائل:
یہاں آیت کی مناسبت سے حرم میں کی جانے والی قربانی سے متعلق 4شرعی مسائل ملاحظہ ہوں
(1)…ہَدی اُس جانور کو کہتے ہیں جو قربانی کے لیے حرم کو لے جایا جائے۔ یہ تین قسم کے جانور ہیں : (۱) بکری۔ اس میں بھیڑ اور دنبہ بھی داخل ہے۔ (۲) گائے۔ بھینس بھی اسی میں شمار ہے۔ (۳) اونٹ۔
(2)…قربانی کے جانور میں جو شرطیں ہیں وہ ہدی کے جانور میں بھی ہیں مثلاً اونٹ پانچ سال کا، گائے دوسال کی، بکری ایک سال کی مگر بھیڑ اور دُنبہ چھ مہینے کا اگر سا ل بھر والی بکری کی مثل ہو تواس کی قربانی ہو سکتی ہے اور اونٹ گائے میں یہاں بھی سات آدمیوں کی شرکت ہوسکتی ہے۔
(3)…ہَدی یعنی قربانی کے لیے حرم میں لے جایا جانے والا جانور اگر حجِ قِران یا تَمَتُّع کی قربانی کا ہو تو قربانی کرنے کے بعد اس کے گوشت میں سے کچھ کھا لینا بہتر ہے، اسی طرح اگر قربانی نفلی ہو اور جانور حرم میں پہنچ گیا ہو تو اس کا گوشت بھی کھا سکتا ہے البتہ اگر جانور حرم میں نہ پہنچا تو اس کا گوشت خود نہیں کھا سکتا بلکہ اب وہ فُقرا کا حق ہے۔ اگر وہ جانور حج قران ، تمتع اور نفلی قربانی کے علاوہ کسی اور جیسے کَفّارے کی قربانی کے لئے ہو تو ا س کا گوشت خود نہیں کھا سکتا اور جس قربانی کا گوشت قربانی کرنے والا خود کھا سکتا ہے وہ مالداروں کو بھی کھلا سکتا ہے اور جس کا گوشت خود نہیں کھا سکتا وہ نہ مالداروں کو کھلا سکتا اور نہ ہی ا س کی کھال وغیرہ سے نفع لے سکتا ہے۔
(4)…ہَدی کا گوشت حرم کے مسکینوں کو دینا بہتر ہے، اس کی نکیل اور جھول کو خیرات کردیں اور قصاب کو اس کے گوشت میں سے کچھ نہ دیں ۔ ہاں اگر اُسے صدقہ کے طور پر کچھ گوشت دیں تو ا س میں حرج نہیں ۔( بہار شریعت، حصہ ششم، ہدی کا بیان، ۱ / ۱۲۱۳-۱۲۱۴،ملخصاً)
نوٹ: ہدی سے متعلق مزید شرعی مسائل کی معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت جلد 1 حصہ 6 سے ’’ہدی کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.