Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Hajj Ayat 74 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(103) | Tarteeb e Tilawat:(22) | Mushtamil e Para:(17) | Total Aayaat:(78) |
Total Ruku:(10) | Total Words:(1439) | Total Letters:(5238) |
{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ: اے لوگو!ایک مثال بیان کی گئی ہے۔}گزشتہ آیات میں بیان کیاگیاکہ بتوں کی عبادت کرنے پرمشرکین کے پاس کوئی عقلی ونقلی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ محض جہالت اوربیوقوفی کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں اور اس آیت میں ایک مثال کے ذریعے بتوں کی عبادت کا باطل ہونا بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!ایک مثال بیان کی گئی ہے، تو اسے کان لگا کر سنو اور اس میں خوب غور کرو،وہ مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو،ان کے عاجز اور بے قدرت ہونے کا یہ حال ہے کہ وہ ہرگز ایک انتہائی چھوٹی سی چیز مکھی بھی پیدا نہیں کرسکیں گے اگرچہ سب مکھی پیدا کرنے کے لئے جمع ہوجائیں تو عقلمند انسان کو یہ زیبا کب دیتا ہے کہ وہ ایسے عاجز اور بے قدرت کو معبود ٹھہرائے، ایسے کو پوجنا اور معبود قرار دینا کتنی انتہا درجے کی جہالت ہے !اور اگر مکھی ان سے وہ شہد و زعفران وغیرہ چھین کرلے جائے جو مشرکین بتوں کے منہ اور سروں پر ملتے ہیں اور ان پر مکھیاں بیٹھتی ہیں تو وہ بت مکھی سے شہد و زعفران چھڑا نہ سکیں گے توایسے بے بس کو خدا بنانا اور معبود ٹھہرانا کتنا عجیب اور عقل سے دور ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۳۱۷، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۲۸۶، ملتقطاً)
{ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ: کتنا کمزورہے چاہنے والااور وہ جس کو چاہا گیا۔} آیت کے اس حصے میں چاہنے والے سے بت پرست اور چاہے ہوئے سے بت مراد ہے، یا چاہنے والے سے مکھی مراد ہے جو بت پر سے شہد و زعفران کی طالب ہے اور مطلوب سے بت مراد ہے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ طالب سے بت مراد ہے اور مطلوب سے مکھی۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۳۱۷)
اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس کی اجازت سے عاجز اور بے بس نہیں :
یاد رہے کہ اس آیت کا تعلق اللہ تعالیٰ کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے نہیں ہے، یہ عاجز اور بے بس نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اجازت اور قدرت سے مخلوق کو نفع پہنچانے اور ان سے نقصان دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں حتّٰی کہ ان میں سے بعض کو مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت بھی عطا ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمان خود قرآنِ پاک میں موجود ہے کہ
’’اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(اٰل عمران:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میںاللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں ۔
یہ آیت بتوں کے بارے میں ہے اور اس میں ان کا عاجز اور بے بس ہونا بیان کیا گیا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَولیاء رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِم پر چسپاں کرنا خارجیوں اور ان کی پیروی کرنے والوں کا کام ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا خارجیوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے بدتر قرار دیتے تھے اورفرماتے تھے کہ جوآیات کفارکے بارے میں نازل ہوئی ہیں یہ ان آیات کومومنین پرچسپاں کردیتے ہیں۔( بخاری،کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین وقتالہم،باب قتل الخوارج والملحدین بعد اقامۃ الحجّۃ علیہم، ۴ / ۳۸۰)
{مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ: انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کا حق ہے۔} ارشاد فرمایا کہ جنہوں نے عاجز و بے بس اور مکھی سے بھی کمزور بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ویسی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کا حق ہے اور اس کی عظمت نہ پہچانی، حقیقی معبود وہی ہے جو کامل قدرت رکھے اور بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا اورغلبے والا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۷۴۹)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.