Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Hijr Ayat 88 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(54) | Tarteeb e Tilawat:(15) | Mushtamil e Para:(13-14) | Total Aayaat:(99) |
Total Ruku:(6) | Total Words:(730) | Total Letters:(2827) |
{لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ:تم اپنی نگاہ نہ اٹھاؤ ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے انبیاء کے سردار! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کو ایسی نعمتیں عطا فرمائیں جن کے سامنے دنیا کی نعمتیں حقیر ہیں ، تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا کے مال و متاع سے مستغنی رہیں جو یہود یوں اور عیسائیوں وغیرہ مختلف قسم کے کافروں کو دیا گیا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۵۸۷، ملخصاً)
علامہ محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’دنیا کے مال ومتاع کی طرف نظر کرنے کی ممانعت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نظر کفار کے مال و دولت کی طرف تھی( تو اس سے منع کیا گیا بلکہ آپ ہمیشہ سے مالِ کفار سے مُجتنَب تھے تو اسی طرزِ عمل پر ثابت قدم رہنے کا فرمایا گیا ہے) اور اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن دنیا کے مال و متاع کی طرف نظر کرنے کی ممانعت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو ہے کیونکہ جسے قرآن کا علم دیا گیا تو ا س کی نظر دنیا کی رنگینیوں کی طرف نہیں بلکہ قرآن میں غورو فکر کرنے، اس کے معانی سمجھنے اور اس میں دئیے گئے احکامات کی تعمیل کرنے کی طرف ہونی چاہئے۔ (البحر المحیط، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۸، ۵ / ۴۵۲)
آیت ’’ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔
(1)… مسلمان کو چاہیے کہ کافر اور کافر کے مال و متاع کو کبھی عز ت کی نگا ہ سے نہ دیکھے۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تم کسی بدعمل پر کسی نعمت کی وجہ سے رشک نہ کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد وہ کس چیز سے ملے گا، اس کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کے پاس اذیت دینے والی ایسی چیز یعنی جہنم کی آگ ہے جو فنا نہ ہو گی۔ (شرح السنۃ، کتاب ا لرقاق، باب النظر الی من ہو اسفل منہ، ۷ / ۳۲۴)
(2)… اہلِ علم حضرات کو چاہئے کہ وہ مالداروں کے ساتھ اس طرح کا تعلق نہ رکھیں کہ جس سے مالداروں کی نظر میں ان کی حیثیت کم ہو اور مالدار انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھنا گوارا نہ کریں بلکہ خود کو ان کے مال و دولت سے بے نیاز رکھیں نیز قرآن پڑھ کر بھیک مانگنے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر غور کریں ۔
{وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ:اور ان کا کچھ غم نہ کھاؤ۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ا س وجہ سے غمزدہ نہ ہوں کہ وہ ایمان نہیں لائے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنے والوں کی صف میں شامل نہیں ہوئے تاکہ ان کے ذریعے کمزور مسلمانوں کو کچھ قوت حاصل ہوتی۔(ابوسعود، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۲۳۸)
{وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ:اور مسلمانوں کیلئے اپنے بازو بچھا دو۔} یعنی ا ے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مسلمانوں پر رحمت اور شفقت کرتے ہوئے ان کے سامنے تواضع فرمائیں اور ان پر ا س طرح رحم فرمائیں جس طرح پرندہ اپنے بچوں پر اپنے پروں کو بچھا دیتا ہے۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۱۰۵۱)
مسلمانوں پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت و شفقت:
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسلمانوں پر رحمت و شفقت تو ایسی ہے کہ ا س کے بارے میں خود رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔
یہ تو قرآنِ مجید سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسلمانوں پر رحمت و شفقت کا بیان ہو ا،اب مسلمانوں پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت و شفقت کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں
(1)…امت کے کمزور، بیمار اور کام کاج کرنے والے لوگوں کی مشقت کے پیشِ نظر عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر نہ فرمایا۔
(2)…کمزور اور بیمار لوگوں اور بچوں کا لحاظ کرتے ہوئے نماز کی قراء ت کو زیادہ لمبا نہ کرنے کا حکم دیا۔
(3)… رات کے نوافل پر ہمیشگی نہ فرمائی تاکہ یہ امت پر فرض نہ ہو جائیں ۔
(4)…امت کے مشقت میں پڑ جانے کی وجہ سے انہیں صومِ وصال کے روزے رکھنے سے منع کر دیا۔
(5)… امت کی مشقت کی وجہ سے ہر سال حج کو فرض نہ فرمایا۔
(6)…مسلمانوں پر شفقت کرتے ہوئے طواف کے تین چکروں میں رَمل کا حکم دیا تمام چکروں میں نہیں دیا۔
(7)…تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پوری پوری رات جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے دربار میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے، یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پائے مبارک پر ورم آ جاتا تھا۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.