Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Hijr Ayat 94 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(54) | Tarteeb e Tilawat:(15) | Mushtamil e Para:(13-14) | Total Aayaat:(99) |
Total Ruku:(6) | Total Words:(730) | Total Letters:(2827) |
{فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ:پس وہ بات اعلانیہ کہہ دو
جس کا آپ کو حکم دیا جارہاہے۔} اس آیت میں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کو
رسالت کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت کے اِظہار کا حکم دیا گیا ۔ عبد اللّٰہ بن عبیدہ کا قول ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت تک دعوتِ اسلام اعلان
کے ساتھ نہیں کی جاتی تھی۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۱۱۰)
اسلام کی دعوت دینے کے
مراحل:
اعلانِ نبوت کے
بعد تین برس تک حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انتہائی پوشیدہ طور
پر اور نہایت راز داری کے ساتھ تبلیغِ اسلام کا فرض ادا فرماتے رہے اور اس درمیان
میں عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اور آزاد مردوں میں سب سے
پہلے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور لڑکوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور غلاموں میں سب سے
پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایمان لائے۔ تین برس کی اس خفیہ دعوتِ اسلام میں
مردوں اور عورتوں کی ایک تعداد اسلام قبول کر کے سیدُ المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے
دامنِ اقدس سے وابستہ ہو گئی۔(المواہب،ذکر اوّل من آمن
باللّٰہ ورسولہ، ۱ /
۴۵۴-۴۵۵، ۴۶۰-۴۶۱، ملخصاً) اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے
حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سورۂ شعراء
کی آیت ’’وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ
الْاَقْرَبِیْنَ‘‘ نازل
فرمائی اور حکم دیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ، آپ اپنے قریبی
خاندان والوں کو اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرائیے۔
چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ایک دن کوہِ صفا کی چوٹی پر چڑھ کر قبیلہ قریش کو پکارا۔ جب
سب قریش جمع ہو گئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے
فرمایا کہ اے میری قوم! اگر میں تم لوگوں سے یہ کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے
ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ
میری بات کا یقین کر لو گے؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں ! ہاں ! ہم یقینا
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات کا یقین کر
لیں گے کیونکہ ہم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہمیشہ سچا (اور امین) ہی پایا ہے۔ سرکارِ دو
عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے
فرمایا ’’ تو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ میں تم لوگوں کو عذابِ الٰہی سے ڈرا رہا ہوں
اور اگر تم لوگ ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر اللّٰہ تعالیٰ
کا عذاب اتر پڑے گا۔ یہ سن کر تمام قریش جن میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چچا ابو لہب بھی تھا،
سخت ناراض ہو ا اور سب کے سب چلے گئے اور حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں اول فول بکنے
لگے۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الشعراء، باب ولا تخزنی
یوم یبعثون، ۳ / ۲۹۴، الحدیث: ۴۷۷۰) اب وہ وقت آگیا کہ
اعلانِ نبوت کے چوتھے سال سورۂ حجر کی آیت’’ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ‘‘ نازل فرمائی اور اللّٰہ تعالیٰ
نے یہ حکم فرمایا کہ اے حبیب! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس کو علی الاعلان بیان
فرمائیے۔ چنانچہ اس کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ علانیہ طور پر دینِ اسلام
کی تبلیغ فرمانے لگے اور شرک و بت پرستی کی کھلم کھلا برائی بیان فرمانے لگے اور
تمام قریش (بلکہ
تمام اہلِ مکہ بلکہ پورا عرب) آپ صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی مخالفت پر کمر
بستہ ہو گیا اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں کی ایذا رسانیوں کا
ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔(المواہب، ذکر اوّل من
آمن باللّٰہ ورسولہ، ۱ /
۴۶۱-۴۶۲)
{وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ:اور مشرکوں سے
منہ پھیر لو۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنا دین ظاہر کرنے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رسالت کی تبلیغ کرنے پر مشرکوں کی
طرف سے ملامت کرنے کی پروا ہ نہ کریں اور اُن کی طرف متوجہ نہ ہوں اور ان کے
اِستہزا کا غم نہ کریں ۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۱۱۰)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.