Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Hujurat Ayat 13 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(106) | Tarteeb e Tilawat:(49) | Mushtamil e Para:(26) | Total Aayaat:(18) |
Total Ruku:(2) | Total Words:(387) | Total Letters:(1513) |
{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى: اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا۔} ارشاد فرمایا :اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورایک عورت حضرت حوا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے پیدا کیا اورجب نسب کے اس انتہائی درجہ پر جا کر تم سب کے سب مل جاتے ہو تو نسب میں ایک دوسرے پر فخر اوربڑائی کا اظہار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ، سب برابر ہو اور ایک جدِّ اعلیٰ کی اولاد ہو (اس لئے نسب کی وجہ سے ایک دوسرے پر فخر کا اظہار نہ کرو) اور ہم نے تمہیں مختلف قومیں ،قبیلے اور خاندان بنایاتاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کی پہچان رکھو اور ایک شخص دوسرے کا نسب جانے اوراس طرح کوئی اپنے باپ دادا کے سوا دوسرے کی طرف اپنے آپ کومنسوب نہ کرے، نہ یہ کہ اپنے نسب پر فخر کرنے لگ جائے اور دوسروں کی تحقیر کرنا شروع کر دے۔( مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۱۵۶)
یاد رہے کہ دنیا میں وہ اُمور اگرچہ کثیر ہیں کہ جن کی وجہ سے فخرو تکبر کیا جاتا ہے لیکن نسب ان میں سب سے بڑا اَمر ہے کیونکہ مال ،حسن اور بزرگی کی وجہ سے کیا جانے والا تکبر ہمیشہ نہیں رہتا بلکہ ان چیزوں کے ختم ہونے پر تکبر بھی ختم ہو جاتاہے جبکہ نسب کی وجہ سے کیا جانے والا تکبر ختم نہیں ہوتا، اسی لئے یہاں بطورِ خاص اسے ذکر کیا گیا۔(تفسیرکبیر، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۰ / ۱۱۳، ملخصاً)
نسب کے ذریعے فخر و تکبر کرنے کی مذمت :
فخر وتکبُّر کے اَسباب میں سے ایک اہم سبب اپنے نسب کے ذریعے دوسروں پر تکبر کرنا ہے ،اس کے بارے میں امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جس آدمی کا نسب اچھا ہو وہ دوسرے نسب والوں کو حقیر جانتا ہے اور بعض لوگ حسب ونسب کے ذریعے اس طرح تکبر کرتے ہیں کہ گویا دوسرے لوگ ان کی مِلکِیَّت میں اوران کے غلام ہیں ،وہ اِن سے میل جول کرنے اور ان کے پاس بیٹھنے سے نفرت کرتے ہیں اور ا س کا نتیجہ ان کی زبان پر یوں آتا ہے کہ تکبر کرتے ہوئے دوسروں کو گھٹیا قسم کے الفاظ سے پکارتے ہوئے کہتے ہیں : تم کون ہو؟ تمہارا باپ کون ہے؟ میں فلاں کا بیٹا فلاں ہوں ، تمہیں مجھ سے بات کرنے یا میری طرف دیکھنے کا کیا حق ہے؟ تو مجھ جیسے لوگوں سے بات کرتا ہے اور مجھ سے اس قسم کی گفتگو کرتا ہے؟(وغیرہ)
یہ ایک ایسی پوشیدہ رگ ہے کہ کوئی بھی نسب والا اس سے خالی نہیں ہوتا اگرچہ وہ نیک اوربا عمل ہو، لیکن بعض اوقات حالت اِعتدال پر ہونے کی صورت میں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی اور جب اس پر غصے کا غلبہ ہو تو وہ اس کے نورِ بصیرت کو بجھادیتا ہے اور اس قسم کی گفتگو ا س کی زبان پر آ جاتی ہے۔
حضرت ابو ذر غفاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی موجودگی میں ایک شخص سے میری تکرار ہوگئی تو میں نے کہا:اے کالی عورت کے بیٹے !تو نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اے ابوذر! صاع پورا نہیں بھراجاتا، سفید عورت کے بیٹے کو سیاہ عورت کے بیٹے پرکوئی فضیلت نہیں ۔ حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں لیٹ گیا اور اس شخص سے کہا : اٹھو اور میرے رخسار کو پامال کردو ۔
تو دیکھئے کس طرح نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں تنبیہ فرمائی جب انہوں نے سفید خاتون کا بیٹاہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو افضل سمجھا اور یہ بات خطا اور نادانی ہے،اور دیکھئے کہ انہوں نے کس طرح توبہ کی اور اپنے آپ سے تکبر کے درخت کو اس شخص کے تلوے کے ذریعے جڑسے اکھاڑ پھینکا جس کے مقابلے میں تکبر کیا گیا تھا کیونکہ آپ کو معلوم ہوگیا تھاکہ تکبر کو صرف عاجزی کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔
اسی سلسلے میں مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی موجودگی میں دو آدمیوں نے ایک دوسرے پر فخر کا اظہار کیا، ایک نے کہا :میں فلاں کا بیٹا فلاں ہوں تم کون ہو؟ تمہاری تو ماں ہی نہیں ۔ اس پر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے دو آدمیوں نے ایک دوسرے پر فخر کیا، ان میں سے ایک نے کہا :میں فلاں کا بیٹافلاں ہوں ، اس طرح وہ نو پُشتیں شمار کرگیا اور کہا:تیری تو ماں ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی بھیجی کہ جس نے فخر کا اظہار کیا ہے اس سے فرمادیجئے : وہ نو کی نوپشتیں جہنم میں جائیں گی اور تم ان کے ساتھ دسویں ہوگے۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث عبد الرّحمٰن بن ابی لیلی... الخ، ۸ / ۳۴، الحدیث: ۲۱۲۳۶)
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایالوگوں کو اپنے آبائو اَجداد پر فخر کرنا چھوڑدینا چاہیے وہ جہنم میں کوئلہ بن گئے یا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کیڑوں سے بھی زیادہ ذلیل ہیں جو اپنے ناک سے گندگی کو دھکیلتے ہیں (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی التّفاخر بالاحساب، ۴ / ۴۲۷، الحدیث: ۵۱۱۶، باختلاف بعض الالفاظ)۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الکبر والعجب، بیان ما بہ التکبّر، ۳ / ۴۳۱-۴۳۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے ،اٰمین۔([1])
{اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ: بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔} آیت کے اس حصے میں وہ چیز بیان فرمائی جارہی ہے جو انسان کے لئے شرافت وفضیلت کا سبب ہے اور جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت حاصل ہوتی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تم میں سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں جاننے والا اور تمہارے باطن سے خبردار ہے۔ شانِ نزول: حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے ، وہاں ملاحظہ فرمایا کہ ایک حبشی غلام یہ کہہ رہا تھا: جو مجھے خریدے اس سے میری یہ شرط ہے کہ مجھے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِقتداء میں پانچوں نمازیں ادا کرنے سے منع نہ کرے۔ اس غلام کو ایک شخص نے خرید لیا، پھر وہ غلام بیمار ہوگیا تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی عیادت کے لئے تشریف لائے ،پھر اس کی وفات ہوگئی اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی تدفین میں تشریف لائے، اس کے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا تو اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔( مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۱۵۶، جلالین، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۴۲۸، ملتقطاً)
عزت اور فضیلت کا مدار پرہیزگاری ہے :
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و فضیلت کا مدار نسب نہیں بلکہ پرہیزگاری ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نسب پر فخر کرنے سے بچے اور تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اسے عزت و فضیلت نصیب ہو، ترغیب کے لئے یہاں اس سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :فتحِ مکہ کے دن حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلِیَّت کا غرور اور ایک دوسرے پر خاندانی فخر دور کر دیاہے اور اب صرف دو قسم کے لوگ ہیں (1)نیک اور متقی شخص جو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معزز ہے۔ (2)گناہگار اور بد بخت آدمی ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ذلیل و خوار ہے ۔تمام لوگ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیاہے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحجرات، ۵ / ۱۷۹، الحدیث: ۳۲۸۱)
(2)…حضرت عداء بن خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں حجۃ الوداع کے دن نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کے منبر ِاقدس کے نیچے بیٹھا ہو اتھا،آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی ،پھر فرمایا’’ بے شک اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے۔
تو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے ،کسی کا لے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر فضیلت حاصل ہے بلکہ فضیلت صرف تقویٰ و پرہیزگاری سے ہے (تو جو مُتَّقی اور پرہیز گار ہے وہ افضل ہے)۔( معجم الکبیر، عداء بن خالد بن ہوذہ العامری، ۱۸ / ۱۲، الحدیث: ۱۶)
(3)…حضر ت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب قیامت کادن ہوگاتوبندوں کواللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑاکیاجائے گااس حال میں کہ وہ غیرمختون ہوں گے اوران کی رنگت سیاہ ہوگی،تواللہ تعالیٰ ارشادفرمائے گا: ’’اے میرے بندو!میں نے تمہیں حکم دیا اورتم نے میرے حکم کو ضائع کردیااورتم نے اپنے نسبوں کوبلندکیااورانہی کے سبب ایک دوسرے پرفخرکرتے رہے ،آج کے دن میں تمہارے نسبوں کوحقیروذلیل قراردے رہاہوں ،میں ہی غالب حکمران ہوں ،کہاں ہیں مُتَّقی لوگ؟کہاں ہیں متقی لوگ؟ بیشک اللہ تعالیٰ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔( تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ علیّ، حرف الالف من آباء العلیین، ۶۱۷۲-علیّ بن ابراہیم العمری القزوینی، ۱۱ / ۳۳۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں نسبی فخرو تکبر سے بچائے اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
[1] ۔۔۔ تکبر سے متعلق ضروری معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’تکبر‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.