سورۂ
اِخلاص کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ اِخلاص ایک قول کے
مطابق مکی اور ایک قول کے مطابق مدنی ہے ۔( خازن، تفسیر سورۃ
الاخلاص، ۴ / ۴۲۵)
رکوع اور
آیات کی تعداد:
اس سورت میں 1رکوع، 4 آیتیں ہیں ۔
’’سورۂ اِخلاص ‘‘ کے
اَسماء اور ان کی وجہِ تَسْمِیَہ :
مفسرین نے اس سور ت کے تقریباً20نام ذکر
کئے ہیں ان میں سے 4 نام یہاں ذکر کئے جاتے ہیں :
(1)… اس سورت میں اللّٰہ تعالیٰ کی خالص توحید کا بیان ہے، اس وجہ سے اسے ’’سورۂ اِخلاص‘‘
کہتے ہیں ۔
(2)… اس سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہر نقص و عیب سے بری اور ہر شریک سے پاک
ہے،اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ تنزیہہ‘‘ کہتے ہیں ۔
(3)…جس نے اس سورت سے تعلق رکھا وہ غیروں سے الگ ہو جاتا ہے اس لئے اسے’’سورۂ تجرید‘‘
کہتے ہیں ۔
(4)…اسے پڑھنے والا جہنم سے نجات پا جاتا ہے اس بنا پر
اسے ’’سورۂ نجات‘‘ کہتے ہیں ۔( صاوی، سورۃ الاخلاص، ۶ / ۲۴۴۹-۲۴۵۰، ملتقطاً)
سورۂ
اِخلاص کے فضائل:
اَحادیث
میں اس سورت کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں ،ان میں سے تین اَحادیث اور ایک وظیفہ یہاں درج ذیل ہے۔
(1) …حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا ’’کیا تم میں سے کوئی اس سے عاجز
ہے کہ وہ رات میں قرآن مجید کا تہائی حصہ
پڑھ لے؟صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُمْکو یہ بات مشکل معلوم ہوئی اور انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، ہم میں سے کون اس کی طاقت
رکھتا ہے؟آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سورۂ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے۔( بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل قل ہو اللّٰہ احد، ۳ / ۴۰۷، الحدیث: ۵۰۱۵)
(2) …حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ایک
شخص کو ایک لشکر میں روانہ کیا،وہ
اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو (سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کے بعد)سورۂ
اخلاص پڑھتے تھے۔جب لشکر واپس آیا تو لوگوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے یہ بات ذکر کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان
سے ارشاد فرمایا: ’’اس سے پوچھو کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟جب لوگوں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا:یہ سورت رحمٰن کی
صفت ہے اس وجہ سے میں اسے پڑھنا پسند کرتا
ہوں۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا’’اسے بتا دو کہ اللّٰہ تعالیٰ اس سے محبت فرماتا ہے۔( بخاری، کتاب
التّوحید، باب ماجاء فی دعاء النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم... الخ، ۴ / ۵۳۱، الحدیث: ۷۳۷۵)
(3) …حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے ،ایک شخص نے سیّدِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے عرض کی کہ’’ مجھے اس سورت سے بہت محبت ہے۔ارشاد فرمایا’’ اس کی
محبت تجھے جنت میں داخل کردے گی۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فی سورۃ الاخلاص، ۴ / ۴۱۳، الحدیث: ۲۹۱۰)
(4) …تفسیر صاوی میں لکھا ہے کہ جو شخص گھر میں داخل
ہوتے وقت سلام کرے اور اگر گھر خالی ہو تو حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو سلام
کرے اور ایک بار قُلْ هُوَ اللّٰهُپڑھ لیا کرے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّفقرو فاقہ
سے محفوظ رہے گا (صاوی، سورۃ الاخلاص، ۶ / ۲۴۵۰، ملخصاً) اور یہ بہت
مُجَرّب عمل ہے۔
سورۂ اخلاص کا شانِ نزول:
اس سورت کا شانِ نزول یہ ہے کہ کفار نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے اللّٰہ رَبُّ الْعزّت کے متعلق
طرح طرح کے سوال کئے، کوئی کہتا تھا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا نسب کیا ہے ؟کوئی کہتا
تھا کہ وہ سونے کا ہے یا چاندی کا ہے یا لوہے کا ہے یا لکڑی کا ہے؟ کس چیز کا ہے؟
کسی نے کہا، وہ کیا کھاتا ہے؟ کیا پیتا ہے ؟رَبُوبِیَّت اس نے کس سے ورثہ میں پائی؟ اور اس کا کون وارث ہوگا؟ ان کے جواب میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی اور اپنی ذات و صفات کا بیان فرما کر
معرفت کی راہ واضح کی اور جاہلانہ خیالات و اَوہام کی تاریکیوں کو جن میں وہ لوگ گرفتار تھے اپنی ذات وصفات کے اَنوار کے
بیان سے مَحْو کردیا۔( خازن، الاخلاص، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۲۶، ملخصاً)