وہ لوگ جو کافر ہوئے ان کے مال اور ان کی اولاد ان کو اللہ کے عذاب سے کچھ بچا نہ سکیں گے اور یہی لوگ جہنمی ہیں ، یہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَنْتُغْنِیَعَنْهُمْاَمْوَالُهُمْوَلَاۤاَوْلَادُهُمْمِّنَاللّٰهِشَیْــٴًـا: ان کے مال اور ان کی اولاد ان کو اللہ کے عذاب سے کچھ بچا نہ سکیں گے۔} شانِ نزول: یہ آیت
بنی قُرَیْظہ اور بنی نَضیِر کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہودی سرداروں نے مال و دولت
کی خاطر سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ دشمنی کی تھی،اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشادفرمایا کہ ان کے مال و
اولاد ان کے کچھ کام نہ آئیں گے، یہ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دشمنی میں ناحق اپنی
عاقبت برباد کررہے ہیں۔(خازن، اٰل عمران،
تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۱ / ۲۹۱)
ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت
مشرکینِ قریش کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ ابوجہل کو اپنی دولت پر بڑا فخر تھا،
اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت تمام کفار کے متعلق عام ہے ۔(تفسیر کبیر، اٰل
عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۳ / ۳۳۵-۳۳۶)
ان سب کو بتایا گیا کہ مال و اولاد میں سے کوئی بھی کام آنے والا اور
عذابِ الٰہی سے بچانے والا نہیں۔صرف رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دامن سے وابستہ ہونا ہی
نجات کا ذریعہ ہے۔
سورۃ کا تعارف
سورۂ اٰلِ عمران کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ آلِ عمران مدینہ طیبہ میں نازل
ہوئی ہے۔ (خازن،
ال عمران، ۱ / ۲۲۸)
آل کا ایک معنی ’’اولاد‘‘ ہے اور اس
سورت کے چوتھے اور پانچویں رکوع میں آیت نمبر33تا 54میں حضرت مریمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہا کے والد عمران کی آل کی سیرت اور ان
کے فضائل کا ذکر ہے ،اس مناسبت سے اس سورت کا نام’’سورۂ آلِ عمران‘‘ رکھا گیا
ہے۔
اس سورت کے مختلف فضائل بیان کئے گئے
ہیں ، ان میں سے 3فضائل درجِ ذیل ہیں۔
(1) …حضرت نواس بن سمعان رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے
ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن قرآنِ مجید اور اس پر عمل کرنے والوں کو لایا جائے
گا، ان کے آگے سورۂ بقرہ اور سورۂ آلِ عمران ہوں گی۔ حضرت نواس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان سورتوں کے لئے تین مثالیں بیان فرمائیں جنہیں میں آج تک
نہیں بھولا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے
ارشاد فرمایا ’’یہ دونوں سورتیں ایسی ہیں جیسے دو بادل ہوں یا دو ایسے سائبان ہوں
جن کے درمیان روشنی ہو یا صف باندھے ہوئے دو پرندوں کی قطاریں ہوں ، یہ دونوں
سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریں گی۔(مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین
وقصرہا، باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳،
الحدیث: ۲۵۳(۸۰۵))
(2) …حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
فرماتے ہیں ’’جو شخص ر ات میں سورۂ آلِ عمر ان کی آخری آیتیں پڑھے گا تو اس کے
لیے پوری رات عبادت کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔(دارمی، کتاب فضائل القرآن،
باب فی فضل اٰل عمران، ۲ / ۵۴۴، الحدیث: ۳۳۹۶)
(3) … حضرت مکحول رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں
’’جو شخص جمعہ کے دن سورۂ آلِ عمران کی تلاوت کرتا ہے تو رات تک فرشتے اس کے لئے
دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ (دارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فی فضل اٰل عمران، ۲ / ۵۴۴، الحدیث: ۳۳۹۷)
سورۂ آلِ عمران کی اپنے سے ماقبل
سورت ’’ بقرہ ‘‘ کے ساتھ کئی طرح سے مناسبت ہے، جیسے دونوں سورتوں کے شروع میں
قرآنِ پاک کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ سورۂ بقرہ میں قرآنِ پاک نازل ہونے کا
اِجمالی طور پر ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں قرآن مجیدکی آیات کی تقسیم بیان
کی گئی ہے۔ سورۂ بقرہ میں جہاد کا اجمالی طور پر ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں
غزوہ ٔ احد کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں جن شرعی احکام کو
اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے انہیں سورۂ آلِ عمران میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا
گیا ہے۔سورۂ بقرہ میں یہودیوں کا ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں عیسائیوں کا
ذکر کیا گیا ہے۔(تناسق الدرر، سورۃ آل
عمران، ص۷۰-۷۳)
اس
سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں حضرت مریمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا
کی ولادت، ان کی پرورش، جس جگہ حضرت مریم رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق
ملتا وہاں کھڑے ہو کر حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَامکا
اولاد کے لئے دعا کرنا، حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کی بشارت ملنا، اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات و واقعات کا بیان ہے۔ اس کے
علاوہ اس سور ت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :
(1) …اللہ تعالیٰ کی وحدانیت،
نبی کریمصَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی
نبوت اور قرآن کی صداقت پر دلائل دئیے گئے ہیں۔
(2) …اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول دین صرف اسلام ہے۔
(3) …حضرت
عیسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی شان کے بارے جھگڑنے والے، نبی کریم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کو جھٹلانے
والے اور قرآن مجید کا انکار کرنے والے نجران کے عیسائیوں سے حضور پر نور صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ہونے والی گفتگو
بیان کی گئی ہے۔
(4) …میثاق
کے دن انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام
سے سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے
بارے عہد لینے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(5)
…مکہ
مکرمہ اور خانۂ کعبہ کی فضیلت اور اس ا مت کے باقی تمام امتوں سے افضل ہونے کا
بیان ہے۔
(6) …یہودیوں
پر ذلت و خواری مُسَلَّط کئے جانے کا ذکر ہے۔
(7) …جہاد
کی فرضیت اورسود کی حرمت سے متعلق شرعی احکام اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا کے
بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
(8) …غزوۂ
بدر اور غزوۂ اُحد کا تذکرہ اوراس سے حاصل ہونے والی عبرت و نصیحت کا بیان ہے۔
(9) …امت کی خیر خواہی میں
مال خرچ کرنے،لوگوں پر احسان کرنے اور بخل نہ کرنے کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔
(10) …شہیدوں
کے زندہ ہونے،انہیں رزق ملنے اور ان کا اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل
ہونے پر خوش ہو نے کا بیان ہے۔
(11) …اوراس
سورت کے آخر میں زمین و آسمان اور ان میں موجود عجائبات اور اَسرار میں غورو فکر
کرنے کی دعوت دی گئی ہے ،نیزجہاد پر صبر کرنے اور اسلامی سرحدوں کی نگہبانی کرنے
کا حکم دیاگیا ہے۔