Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Imran Ayat 185 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(89) | Tarteeb e Tilawat:(3) | Mushtamil e Para:(33-4) | Total Aayaat:(200) |
Total Ruku:(20) | Total Words:(3953) | Total Letters:(14755) |
{ كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے ۔ } یعنی انسان ہو ں یا جن یا فرشتہ، غرض یہ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا ہر زندہ کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے ۔
موت کی یاد اور اس کی تیاری کی ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار پر موت مقرر فرما دی ہے اوراس سے کسی کو چھٹکارا ملے گا اور نہ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں جا سکے گا۔ موت روح کے جسم سے جدا ہونے کا نام ہے اور یہ جدائی انتہائی سخت تکلیف اور اذیت کے ساتھ ہو گی اور اس کی تکلیف دنیا میں بندے کو پہنچنے والی تمام تکلیفوں سے سخت تر ہو گی۔موت اور اس کی سختی کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّؕ-ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِیْدُ(ق:۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور موت کی سختی حق کے ساتھ آگئی، (اس وقت کہا جاتا ہے)یہ وہ (موت)ہے جس سے تو بھاگتا تھا ۔
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا’’اے کعب! رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ، ہمیں موت کے بارے میں بتائیے۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :اے امیر المؤمنین ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،موت ایک ایسی کانٹے دار ٹہنی کی طرح ہے جسے کسی آدمی کے پیٹ میں داخل کیا جائے اور اس کا ہر کانٹا ایک ایک رگ میں پیوست ہو جائے ،پھر کوئی طاقتور شخص اس ٹہنی کو اپنی پوری قوت سے کھینچے تو اس ٹہنی کی زد میں آنے والی ہر چیز کٹ جائے اور جو زد میں نہ آئے وہ بچ جائے ۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۱۰)
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مومن پر دنیا اور آخرت کا کوئی خوف موت سے بڑھ کر نہیں ، یہ خوف آروں سے چیرنے ،قینچیوں سے کاٹنے اور ہانڈیوں میں ابالنے سے بھی زیادہ سخت ہے ۔اگر کوئی میت قبر سے نکل کر دنیا والوں کو موت کی سختیاں بتا دے تو وہ نہ زندگی سے نفع اٹھا سکیں گے اور نہ نیند سے لذت حاصل کر سکیں گے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۹)
مروی ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصال ہو ا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: اے میرے خلیل! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم نے موت کو کیسا پایا؟ آپ نے عرض کی : جس طرح گرم سیخ کو تر روئی میں رکھا جائے پھر اسے کھینچ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ہم نے آپ پر موت کو آسان کیا ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۹)
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :بے شک رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے پانی کا ایک برتن رکھا ہو اتھا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے دونوں ہاتھ پانی میں داخل کرتے، پھر انہیں چہرۂ انور پر ملتے اور کہتے : بے شک موت میں تکلیف ہوتی ہے ۔پھر دستِ مبارک اٹھاکر فرماتے ’’رفیق اعلیٰ میں۔ یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی روح قبض کر لی گئی اور دستِ مبارک جھک گیا ۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۰)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے فرمایا ’’میں نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال کے وقت جو سختی دیکھی اس کے بعد مجھے کسی کی آسان موت پر رشک نہیں ہے۔(ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی التشدید عند الموت، ۲ / ۲۹۵، الحدیث: ۹۸۱)
جب حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کے بیٹے نے ان سے کہا : اے بابا جان! آپ کہا کرتے تھے کہ کوئی عقلمند انسان مجھے نَزع کے عالَم میں مل جائے تو میں اس سے موت کے حالات دریافت کروں ، تو آپ سے زیادہ عقل مند کون ہو گا ،برائے مہربانی آپ ہی مجھے موت کے حالات بتا دیجئے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اے بیٹے ! خدا کی قسم،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے دونوں پہلو ایک تخت پر ہیں اور میں سوئی کے نکے کے برابر سوراخ سے سانس لے رہا ہوں اور ایک کانٹے دار شاخ میرے قدموں کی طرف سے سر کی جانب کھینچی جا رہی ہے ۔(التذکرہ للقرطبی، باب ما جاء انّ للموت سکرات۔۔۔ الخ، ص۲۴)
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم تو سر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اورہمارے اوپر موت کی سختیوں کے علاوہ نجانے اور کتنی مصیبتیں آئیں گی اس لئے عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ موت کو بکثرت یاد کیا جائے اور دنیا میں رہ کر موت اور اس کے بعد کی تیاری کی جائے ۔
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنا تابعدار بنا لے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور عاجز وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات پر چلتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی کرتا ہو ۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ تھا کہ ایک انصاری آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سلام کیا اور عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، کونسا مومن افضل ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’جس کے اخلاق عمدہ ہوں۔ اس نے عرض کی : سب سے زیادہ عقلمندکون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہو اور اس کی اچھی طرح تیاری کرتا ہو تو وہی سب سے زیادہ عقلمند ہے ۔(ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، ۴ / ۴۹۶، الحدیث: ۴۲۵۹)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں وہاں موجود افراد میں سے دسواں تھا ۔ اسی دوران ایک انصاری شخص آئے اور عرض کی :یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،لوگوں میں سب سے زیادہ عقلمند اور محتاط کون ہے؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’وہ لوگ جوموت آنے سے پہلے اسے زیادہ یاد کرتے اور اس کے لئے زیادہ تیاری کرتے ہیں وہی عقلمند ہیں ،وہ دنیا کی شرافت اور آخرت کی بزرگی لے گئے۔(معجم الکبیر، ۱۲ / ۳۱۸، الحدیث: ۱۳۵۳۶)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ موت کی یاد اور اس کے بعد کی تیاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جب اس دار فنا سے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی ہے تو عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہاں کی تیاری کرے جہاں ہمیشہ رہنا ہے ۔
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے فرمایا، دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر بلکہ راہ چلتا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: کن فی الدنیا کانّک غریب۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۲۳، الحدیث: ۶۴۱۶)
تو مسافر جس طرح ایک اجنبی شخص ہوتا ہے اور راہ گیر راستے کے کھیل تماشوں میں نہیں لگتا کہ منزل مقصود تک پہنچنے میں ناکامی ہو گی اسی طرح مسلمان کو چاہیے کہ دنیا اور اس کی رنگینیوں میں نہ پھنسے اور نہ ایسے تعلقات پیدا کرے کہ مقصود اصلی حاصل کرنے میں آڑے آئیں اور موت کو کثرت سے یاد کرے کہ دنیا اور اس کی لذتوں میں مشغول ہونے سے روکے گی، حدیث میں ہے : لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو کثرت سے یاد کرو ۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی ذکر الموت، ۴ / ۱۳۸، الحدیث: ۲۳۱۴)
مگر کسی مصیبت پر موت کی آرزو نہ کرے کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے اور ناچار کرنی ہی پڑے تو یوں کہے، یااللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک میری زندگی میرے لئے بہتر ہو، اور موت دے جب میرے لئے بہتر ہو۔(بخاری، کتاب المرضی، باب تمنّی المریض الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۱)
یونہی مسلمان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھے اوراس کی رحمت کا امیدوار رہے ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک نوجو ان کے پاس اس حال میں تشریف لے گئے کہ وہ مرنے کے قریب تھا۔ ارشادفرمایا: تو اپنے آپ کو کس حال میں پاتا ہے؟ عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈر ۔ ارشاد فرمایا : ’’یہ دونوں خوف اور امیداس موقع پر جس بندے کے دل میں ہوں گے اللہ تعالیٰ اسے وہ دے گا جس کی امید رکھتا ہو اور اس سے امن میں رکھے گا جس سے خوف کرتا ہے۔ (ترمذی، کتاب الجنائز، ۱۱-باب، ۲ / ۲۹۶، الحدیث: ۹۸۵)
یاد رکھئے! رُوح قبض ہونے کا وقت بہت ہی سخت وقت ہے کہ اسی پر سارے اعمال کا دارومدار ہے بلکہ ایمان کے اُخْرَوی نتائج اسی پر مُرَتَّب ہوں گے کہ اعتبار خاتمہ ہی کا ہے اور شیطان لعین ایمان لینے کی فکر میں ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس کے مکر و فریب سے بچائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے وہ ہی مراد کو پہنچا۔ (بہار شریعت، موت آنے کا بیان، حصہ چہارم،۱ / ۸۰۶-۸۰۷، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہم سب کا خاتمہ اچھا فرمائے اور ہم پر موت کی سختیاں آسان فرمائے ۔ ([1])
{وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ:اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ تمہارے اچھے برے اعمال کی جزا قیامت کے دن تمہیں پوری پوری دی جائے گی، تو اس دن جسے جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا اور اس سے نجات دے کر جنت میں داخل کر دیاگیا اسی نے حقیقی کامیابی حاصل کی۔(روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۵، ۲ / ۱۳۸)
یاد رہے کہ برے اعمال کی وجہ سے دنیا میں جو عذاب آتا ہے یا مرنے کے بعد قبر میں جو عذاب ہوتا ہے، یونہی نیک اعما ل پر قبر میں جو راحتیں نصیب ہوتی ہیں یہ اعمال کی پوری جزا نہیں بلکہ آخرت میں ملنے والی جزا کا ایک نمونہ ہے جبکہ اعمال کی پوری جزا قیامت کے دن ہی ملے گی۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت میں حقیقی کامیابی یہ ہے کہ بندے کو جہنم سے نجات دے کر جنت میں داخل کر دیا جائے جبکہ دنیا میں کامیابی فی نفسہ کامیابی تو ہے لیکن اگر یہ کامیابی آخرت میں نقصان پہنچانے والی ہے تو حقیقت میں یہ خسارہ ہے۔ اور خصوصاً وہ لوگ کہ دنیا کی کامیابی کے لئے سب کچھ کریں اور آخرت کی کامیابی کیلئے کچھ نہ کریں وہ تو یقینا نقصان ہی میں ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسے اعمال کی طرف زیادہ توجہ دے اور ان کے لئے زیادہ کوشش کرے جن سے اسے حقیقی کامیابی نصیب ہو سکتی ہے اور ان اعمال سے بچے جو اس کی حقیقی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
{وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ:اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔} یعنی دنیا کی لذتیں ، اس کی خواہشات اور رعنائیاں صرف دھوکے کا سامان ہے کیونکہ ان کا ظاہر تو بہت خوبصورت نظر آتا ہے لیکن ان کا باطن فساد سے بھرپور ہے۔
دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے :
اس آیت سے معلوم ہو اکہ دنیا کی عیش و عشرت اور زیب و زینت اگرچہ کتنی ہی زیادہ ہو، یہ دھوکے کے سامان کے علاوہ کچھ نہیں ،لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا کی رنگینیوں سے ہر گز دھوکہ نہ کھائے ، ذلیل دنیا کو حاصل کرنے کے لئے اپنی قیمتی ترین ٓخرت کو ہر گز تباہ نہ کرے ،اسی کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ٘-وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ (لقمان:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دینے والاہوگا۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا دھوکہ دینے والا تمہیں اللہ کے علم پر دھوکے میں نہ ڈالے۔
اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اپنی دنیا سے محبت کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچا لیتا ہے اور شخص اپنی آخرت سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے،لہٰذا تم فنا ہوجانے والی (دنیا) پر باقی رہنے والی (آخرت )کو ترجیح دو۔(مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری، ۷ / ۱۶۵، الحدیث: ۱۹۷۱۷)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک بزرگ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’اے لوگو! اس فرصت کے وقت میں نیک عمل کرلو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ امیدوں پر پھولے مت سماؤ اوراپنی موت کو نہ بھولو۔ دنیا کی طرف مائل نہ ہوجاؤ، بے شک یہ دھوکے باز ہے اور دھوکے کے ساتھ بن ٹھن کر تمہارے سامنے آتی ہے اور اپنی خواہشات کے ذریعے تمہیں فتنے میں ڈال دیتی ہے، دنیا اپنی پیروی کرنے والوں کے لیے اس طرح سجتی سنورتی ہے جیسے دلہن سجتی ہے۔ دنیا نے اپنے کتنے ہی عاشقوں کو ہلاک کردیا اور جنہوں نے اس سے اطمینان حاصل کرنا چاہا انہیں ذلیل ورسوا کر دیا، لہٰذا اسے حقیقت کی نگاہ سے دیکھو کیونکہ یہ مصیبتوں سے بھرپور مقام ہے، اس کے خالق نے اس کی مذمت کی، اس کا نیا پرانا ہوجاتا ہے اور اسے چاہنے والا بھی مرجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور اس سے پہلے نیند سے آنکھیں کھول لو کہ یوں اعلان کیا جائے: فلاں شخص بیمار ہے اور اس کی بیماری نے شدت اختیار کرلی ہے،کیاکوئی دوا ہے؟ یا کسی ڈاکٹر تک جانے کی کوئی صورت ہے؟ اب تمہارے لیے حکیموں (اور ڈاکٹروں ) کو بلایاجاتا ہے، لیکن شفا کی امید ختم ہو جاتی ہے، پھر کہاجاتا ہے: فلاں نے وصیت کی اور اپنے مال کا حساب کیا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے: اب اس کی زبان بھاری ہوگئی، اب وہ اپنے بھائیوں سے بات نہیں کرتا اور پڑوسیوں کو نہیں پہچانتا، اب تمہاری پیشانی پر پسینہ آگیا، رونے کی آوازیں آنے لگیں اور تمہیں موت کا یقین ہوگیا، تمہاری پلکیں بند ہونے سے موت کا گمان یقین میں بدل گیا، زبان تھر تھرا رہی ہے، تیرے بہن بھائی رو رہے ہیں ، تمہیں کہا جاتا ہے کہ یہ تمہارا فلاں بیٹا ہے، یہ فلاں بھائی ہے ،لیکن تو کلام کرنے سے روک دیا گیا ہے، پس تو بول نہیں سکتا، تمہاری زبان پر مہر لگ گئی جس کی وجہ سے آواز نہیں نکلتی، پھر تمہیں موت آگئی اور تیری روح اعضاء سے پوری طرح نکل گئی، پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا گیا، اس وقت تمہارے بھائی جمع ہوتے ہیں ، پھر تمہارا کفن لاتے ہیں اور تمہیں غسل دے کر کفن پہناتے ہیں۔ اب تمہاری عیادت کرنے والے خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور تجھ سے حسد کرنے والے بھی آرام پاتے ہیں، گھر والے تمہارے مال کی طرف متوجہ ہوجاتے اور تمہارے اعمال گروی ہوجاتے ہیں۔(احیاءعلوم الدین، کتاب ذمّ الدنیا، بیان المواعظ فی ذم الدنیا وصفتہا، ۳ / ۲۶۰، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں دنیا کی حقیقت کو پہچاننے ،اس کے دھوکے اور فریب کاری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
[1] …اپنے دل میں موت کی یاد کو مضبوط کرنے کے لئے رسالہ’’موت کاتصور‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا مفید ہے۔